Saturday, January 25, 2014

تحذیر الناس کا تحقیقی جائزہ

تحذیر الناس اور قادیانیت :

قادیانی حضرات مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب “تحذیر الناس” کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے اور یہ کہ یہ امر خاتم النبیین کے منافی نہیں، حالانکہ حضرت کی تحریر اسی کتاب میں موجود ہے کہ جو شخص خاتمیت زمانی کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
“سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے، ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے، ادھر تصریحات نبوی مثل:“انت منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔” او کما قال۔
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے، اس باب میں کافی، کیونکہ یہ مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے، پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ سند تواتر منقول نہ ہوں، سو یہ عدم تواتر الفاظ، باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متواتر نہیں، جیسا اس کا منکر کافر ہے، ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
(تحذیر الناس طبع جدید ص:۱۸، طبع قدیم ص:۱۰)
اس عبارت میں صراحت فرمائی گئی ہے کہ:
الف…خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا، آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
ب:…اس پر تصریحاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متواتر موجود ہیں اور یہ تواتر رکعاتِ نماز کے تواتر کی مثل ہے۔
ج:…اس پر امت کا اجماع ہے۔
د:…اس کا منکر اسی طرح کافر ہے، جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اور پھر اسی تحذیر الناس میں ہے:
“ہاں اگر بطور اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم خاتمیت مرتبی ہے نہ زمانی، اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء اللہ انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․”
(طبع قدیم ص:۹، طبع جدید ص:۱۵)
اس کے بعد یہ تحقیق فرمائی ہے کہ لفظ خاتم النبیین سے خاتمیت مرتبی بھی ثابت ہے اور خاتمیت زمانی بھی، اور “مناظرہ عجیبہ” میں جو اسی تحذیر الناس کا تتمہ ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
“مولانا! حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلّم ہے اور یہ بات بھی سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
(ص:۹ طبع جدید)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“البتہ وجوہ معروضہ مکتوب تحذیر الناس تولد جسمانی کی تاخیر زمانی کے خواستگار ہیں، اس لئے کہ ظہور تاخر زمانی کے سوا تاخر تولد جسمانی اور کوئی صورت نہیں۔” (ص:۱۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اور اگر مخالف جمہور اس کا نام ہے کہ مسلّمات جمہور باطل اور غلط اور غیرصحیح اور خلاف سمجھی جائیں، تو آپ ہی فرمائیں کہ تاخر زمانی اور خاتمیت عصر نبوت کو میں نے کب باطل کیا؟ اور کہاں باطل کیا؟
مولانا! میں نے خاتم کے وہی معنی رکھے جو اہل لغت سے منقول ہیں اور اہل زبان میں مشہور، کیونکہ تقدم و تاخر مثل حیوان، انواع مختلفہ پر بطور حقیقت بولا جاتا ہے، ہاں تقدم و تاخر فقط تقدم و تاخر زمانی ہی میں منحصر ہوتا تو پھر درصورت ارادہٴ خاتمیت ذاتی و مرتبی البتہ تحریف معنوی ہوجاتے۔ پھر اس کو آپ تفسیر بالرائے کہتے تو بجا تھا۔” (ص:۵۲)
“مولانا! خاتمیت زمانی کی میں نے تو توجیہ کی ہے تغلیط نہیں کی، مگر ہاں آپ گوشہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں۔ اخبار بالعلة مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مصداق اور موٴید ہوتا ہے، اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی کو ذکر اور شروع تحذیر ہی میں ابتدائے مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کردیا۔” (ص:۵۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
“مولانا! معنی مقبول خدام والا مقام․․․․․․․
مختار احقر سے باطل نہیں ہوتے، ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بمقابلہ “قضایا قیاساتھا معھا” اگر من جملہ “قیاسات قضایاھا معھا” معنی مختار احقر کو کہئے تو بجا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر لیجئے، صفحہ نہم کی سطر دہم سے لے کر صفحہ یازدہم کی سطر ہفتم تک وہ تقریر لکھی ہے جس سے خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی اور خاتمیت مرتبی تینوں بدلالت مطابقی ثابت ہوجائیں، اور اسی تقریر کو اپنا مختار قرار دیا ہے، چنانچہ شروع تقریر سے واضح ہے۔
سو پہلی صورت میں تو تاخر زمانی بدلالت التزامی ثابت ہوتا ہے اور دلالت التزامی اگر دربارہٴ توجہ الی المطلوب، مطابقی سے کمتر ہو مگر دلالت ثبوت اور دل نشینی میں مدلول التزامی مدلول مطابقی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ کسی چیز کی خبر تحقق اس کے برابر نہیں ہوسکتی کہ اس کی وجہ اور علت بھی بیان کی جائے ․․․․․․․”
“حاصل مطلب یہ کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں، بلکہ یوں کہئے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی، افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاوٴں جمادئیے ․․․․․․․” (ص:۷۱)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں، جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔” (ص:۱۴۴)
حضرت نانوتوی کی یہ تمام تصریحات اسی تحذیر الناس اور اس کے تتمہ میں موجود ہیں، لیکن قادیانیوں کی عقل و انصاف اور دیانت و امانت کی داد دیجئے کہ وہ حضرت نانوتوی کی طرف یہ منسوب کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔ جبکہ حضرت نانوتوی اس احتمال کو بھی کفر قرار دیتے ہیں اور جو شخص ختم نبوت میں ذرا بھی تامل کرے اسے کافر سمجھتے ہیں۔
یہی وراثت ان کی اُمت کو پہنچی ہے۔ اس عریضہ میں، میں نے صرف حضرت نانوتوی کے بارے میں ان کی غلط بیانی ذکر کی ہے، ورنہ وہ جتنے اکابر کے حوالے دیتے ہیں سب میں ان کا یہی حال ہے، اور ہونا بھی چاہئے، جھوٹی نبوت جھوٹ ہی کے سہارے چل سکتی ہے، حق تعالیٰ شانہ عقل و ایمان سے کسی کو محروم نہ فرمائیں۔

تحذیر الناس کا تحقیقی جائزہ:

بریلوی مکتبہ فکر کے کچھ افراد اس تردد کا اظہار کرتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله کی کتاب "تحذیر الناس" میں ایسا قابل  اعتراض مواد موجود ہے ، جس کی بنا پر مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کو نبوت کا دعوی کرنے کا جواز مل گیا - اس مکتب فکر کے بعض اہل علم بھی بعض اوقات انتہائی غیر محتاط انداز میں گفتگو کرکے ایسے علاقوں میں جہاں مرزائیت موجود ہے اور لوگ دینی بیداری کی بنیاد پر اس کا راستہ روکے ہوئے ہیں ، شکوک و شبہات پیدا کرکے نہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں بلکہ مرزائیت کے کفر کو ہلکا کرکے ان کی ریشہ دوانیوں میں بالواسطہ ان کے ممدو و معاون ثابت ہوتے ہیں
یہ بات معمولی سی لگتی ہے مگر بڑی خطرناک اور نتائج کے اعتبار سے واقعۃ سم قاتل ہے - کہتے ہیں کہ گرمی وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں آگ جلتی ہے - اس صورت حال میں صحیح ادراک ان لوگوں کو ہوسکتا ہے جو برسوں کی محنت سے کفر مرزائیت کا گھیرا تنگ کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوررہے ہوں اور اچانک کوئی یہ نعرہ لگادے کہ مرزا کو نبوت کا دعوی کرنے کی راہ [نعوذبالله] حضرت نانوتی رحمہ الله نے دکھائی اور یوں یہ لوگ ایک جملہ ادا کرکے علماء کی برسوں کی محنت کو بزعم خود صفر کرنے کی ناکام کوشش کریں۔صاحب فہم و بصیرت اس بات کی تائید کریں گے کہ یہ کوئی دین کے خدمت نہیں بلکہ نادانستہ یا دانستہ اغیار کی سازشوں کا آلہ کار بننے کی جسارت ہے -

تحذیر الناس کا پس منظر:

رسالہ "تحذیر الناس" ایک استفتاء کا جواب ہے جو ہندوستان کے شہر بریلی میں رہنے والے ایک ممتاز عالم دین مولانا محمد احسن نانوتوی نے حجۃ الاسلام قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔یہ فتوی جس کا پورا نام "تحذیر الناس [من انکار اثر ابن عباس رضی الله عنه] ہے کتابی صورت میں پہلی بار 1290 ہجری بمطابق 1873 میں مطبع صدیقی بریلی کے زیر اہتمام چھاپا گیا -
ہندوستان میں ان دنوں "امکان نظیر" اور "امتناع نظیر" پر بحث ہورہی تھی - مولانا عبدالقادر بدیوانی "امتناع نظیر" اور شمس العلماء مولانا امیر سہسوانی "امکان نظیر" کا نظریہ پیش کرتے تھے اور مناظرے کی نوبت بھی آتی تھی - ان کے مناظر کے مفصل حالات کتاب کی صورت میں "مناظرہ احمديہ" کے نام سے 1289 ہجری میں مطبع شعلہ کانپور سے طبع ہوئے - اس مناظرہ میں درمنثور میں نقل شدہ اثر جو حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنه سے منقول ہے پر بھی بحث کی گئی اور امکانیوں نے اس کا اثبات اور امتناعیوں نے اس کی صحت کا انکار کیا
إن الله خلق سبع أرضین فی کل أرض آدم کادمکم و نوح کنوحکم و إبرھیم کا إبراھیمکم و عیسی کعیسٰکم و نبی کنبیکم
مولوی نقی علی خان صاحب نے ایک استفتاء بابت صحت و عدم صحت اثر ابن عباس رضی الله عنه مولانا محمد احسن نانوتوی صاحب کے پاس ارسال کیا - مولانا صاحب نے جواب دینے سے انکار کردیا ، مگر بعد میں جب مولانا عبد الحئی فرنگی محلی نے "صحب اثر ابن عباس رضی الله عنه" کا فتوی دیدیا اور مفتی سعد الله صاحب نے اس کی تصدیق کردی تو مولانا محمد احسن صدیقی نانوتوی نے ان دو حضرات کی تصدیق پر اپنی مہر تصدیق بھی ثبت کردی جس پر رسالہ "مناظرہ احمدیه" کے مؤلف مولوی محمد نذیر سہسوانی نے آخر میں ایک جملہ بڑھادیا کہ
‏‎‏"مولوی محمد احسن صدیقی نانوتوی بھی اس اثر ابن عباس رضی الله عنه کی صحت کے معتقد ہیں اور اسی پر ان کی مہر بھی ثبت ہے اس کے علاوہ اور علماء بھی ان کے قائل ہیں" -
( مولانا محمد احسن نانوتوی - ڈاکٹر محمد ایوب قادری - روھیل کھنڈلڑیری سوسائٹی کراچی ص85)
دراصل یہ استفتاء مولانا محمد احسن نانوتوی کو بدنام کرنے کے لیے ان کے پاس ارسال کیا گیا تھا ، انہوں نے مستفتی کی سازش کو بھانپ لیا تو خود کوئی جواب نہ دیا ، چناچہ مستفتی نے مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے پاس ارسال کیا تو انہوں نے صحت "اثر ابن عباس رضی الله عنه" کا فتوی دیا اور مفتی سعد الله مرادآبادی سے بھی تصدیق کروائی - مولانا محمد احسن نانوتوی نے ان دو حضرات کی تصدیق پر گو کہ مہر ثبت کردی ، لیکن مولوی نقی علی خان کے ساتھی رحمت حسین کو ایک خط میں یہ لکھا کہ اگر کسی معتمد عالم کی تحقیق اس کے علاوہ ہوئی تو مجھے اس تصدیق سے رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہوگا - چناچہ لکھتے ہیں
جناب مخدوم و مکرم دام مجدہم "پس از سلام مسنون التماس یہ ہے کہ واقع میں جواب مرسلہ مولوی نقی علی خان صاحب میری تحریر کے مطابق ہے میں نے یہ جواب اس جواب کا خلاصہ لکھا تھا جو مولوی عبد الحئی فرنگی محلی نے لکھا تھا [لکھنؤ] میں چھپا ہے اور زبانی سامنے شاہ نظام حسین صاحب کے میں نے یہ اقرار کیا کہ مجھ کو اس تحریر پر اصرار نہیں جس وقت علماء کے اقوال کتب مستندہ سے آئیں غلطی ثابت ہوگی ‎میں فورآ مان لوں گا مگر مولوی نقی علی خان صاحب نے براہ مسافر نوازی کوئی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اطلاع دی بلکہ اول ہی کفر کا حکم شائع فرمادیا اور تمام بریلی میں لوگ اسی طرح کہتے پھرے - خیر میں نے خدا کے حوالے کیا اگر اس تحریر سے عند الله کافر ہوں؟ تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالی قبول کرے ، زیادہ نیاز" عاصی محمد احسن عفی عنہ" -(مولانا محمد احسن نانوتوی - ڈاکٹر محمد ایوب قادری - روھیل کھنڈلڑیری سوسائٹی کراچی ص87)
ان اقتباسات اور اس وقت کی بعض دیگر تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مخالفت و تفرقہ کا ماحول بنانا پہلے سے طے شدہ تھا اس مقصد کے تحت جونہی "مناظرہ احمدیہ" شائع ہوا ، مخالفت اور طعن و تشنیع کا بازار گرم کردیا گیا - مولوی نقی علی خان نے مولانا محمد احسن نانوتوی پر کفر کا فتوی لگاکر اس کو بازار بریلی میں خوب مشتہر کیا - اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1290 ہجری میں مدرسہ "مصباح التہذیب" بند ہوگیا اور ساتھ ہی لوگوں کو ابھارا گیا کہ مولانا محمد احسن نانوتوی کی اقتداء میں عیدین کی نماز نہیں ہوتی اور دوسری جگہ حسین باغ بریلی میں خود مولوی نقی علی خان نے عید کی نماز پڑھائی ، حالانکہ بریلی میں مولوی نقی علی خان کے علاوہ جید علماء کرام کی کوئی کمی نہ تھی جنکی اکثریت مولانا محمد احسن نانوتوی کو نہ صرف باکردار عالم سمجھتی تھی بلکہ ان کی عقیدت سے سرشار تھی
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سازش کی بنیادی وجہ مولانا محمد احسن نانوتوی کی عوامی مقبولیت و شہرت اور عیدگاہ کی امامت تھی جو مولوی نقی علی خان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ڈاکٹر محمد ایوب قادری نے ایک اور نقطہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے
‏"یہاں اس امر کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ "اثر ابن عباس رضی الله عنہ" کے مسئلہ میں علماء بریلی اور بدایوانی نے مولانا محمد احسن کی بڑی شدومد سے مخالفت کی - بریلی میں اس محاذ کی قیادت مولوی نقی خان کررہے تھے اور بدایوں میں مولوی عبد القادر بدایوانی بن مولانا فضل رسول بدایونی سرخیل جماعت تھے یہی بریلی اور دیوبند کی مخالفت کا نقطہ آغاز تھا جو بعد میں ایک بڑی وسیع خلیج کی شکل اختیار کرگیا" -
( مولانا محمد احسن نانوتوی - ڈاکٹر محمد ایوب قادری - روھیل کھنڈلڑیری سوسائٹی کراچی - ص94)
عیدالفطر [شوال 1290 ہجری] کے موقع پر مولوی نقی علی خان نے عیدگاہ میں مولانا محمد احسن نانوتوی کے نماز پڑھانے کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی حالانکہ مولانا ایک مدت سے عیدین کی امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے اس صورت حال کو دیکھ کر مولانا محمد احسن نانوتوی نے درج ذیل تحریر لکھنی موزوں سمجھی
‏"اگر سید احمد شاہ صاحب نماز عیدگاہ میں پڑھادیں تو کسی طرح کا نزاع اور تکرار پیش نہ ہوگا نہ ہماری طرف سے نہ ہمارے دوستوں کی طرف سے اور در صورت نہ ہونے یا انکار کرنے سید صاحب کے قاضی غلام حمزہ صاحب کا امام ہونا مناسب ہے اس پر بھی کچھ تکرار نہ ہوگی اگر انہوں نے بھی قبول نہ کیا تو ہم کو کچھ بحث نہیں کسی کی امامت سے ہماری طرف سے نزاع نہ ہوگی" – (حوالہ بالا ،  ص86)
مگر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ آئی آخر کار مولانا محمد احسن نانوتوی نے مولوی نقی علی خان کو عیدگاہ سے یہ پیغام بھجوایا کہ
"میں نماز پڑھنے کو آیا ہوں پڑھانا نہیں چاہتا آپ تشریف لائیں جسے چاہیں امام کیجئے میں اس کی اقتداء کرلوں گا" - (حوالہ بالا ،  ص87
لیکن پھر بھی مولوی نقی علی خان نے اپنی علیحدہ حسین باغ میں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد "اثر ابن عباس رضی الله عنہ" کی صحت تسلیم کرنے کی وجہ سے مولانا محمد احسن نانوتی کی تکفیر کی
اس صورت حال کے پیش نظر مولانا محمد احسن نانوتوی نے مولوی نقی علی خان کے ساتھی رحمت حسین کے نام تحریر ارسال کردی تھی مگر مولوی نقی علی خان اس تحریر سے مطمئن نہ تھے ان کی رائے میں "اثر ابن عباس رضی الله عنہ"  کی صحت قبول کرنے کے بعد مولانا محمد احسن نانوتوی [نعوذ بالله] منکر خاتم النبین صلی الله علیه وسلم ٹھرتے تھے اس لئے انہوں نے رام پور سے ایک فتوی مولانا محمد احسن نانوتوی کی تکفیر کے مضمون کا منگوایا اور خوب مشتہر کرایا - چناچہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے مولانا محمد احسن نانوتوی نے اپنی صفائی میں یہ اشتہار پیش کیا
‏"عیدالفظر کے روز چرچا ہورہا تھا کہ مولوی نقی علی خان صاحب نے ایک استفتاء رام پور سے منگوایا ہے جس کی رو سے میری تکفیر مشتہر کی وہ استفتاء میری نظر سے بالتفصیل نہیں گزرا ، بعد میں تشریف آوری مولوی یعقوب خان صاحب اس کی نقل میں نے مفصل دیکھی اور اس عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر پر میں بھی علماء کے ساتھ متفق ہوں یعنی جو شخص خاتم النبین سوائے آنحضرت صلی الله عليه وسلم کے ساتھ کسی دوسرے کو جانے اور آپ صلی الله علیه وسلم کی نبوت مخصوص کسی طبقہ کے ساتھ مانے وہ شخص میرے نزدیک بھی خارج از دائرہ اسلام اور کافر ہے - لہذا برنظر دور کرنے مظنہ عوام کے یہ اشتہار دیتا ہوں کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی الله عنه کے سوا نہ کوئی خاتم النبین ہوا نہ ہوگا پس خلاف اس عقیدہ کے غیر صحیح اور غلط تصور کیا جائےالمشتہر:محمد احسن نانوتوی -
(حوالہ بالا ،   ص88)
یہ سارے جتن کرچکنے کے بعد جب کوئی بات کارگر ثابت نہ ہوئی اور مولوی نقی علی خان فتوی کفر پر مصر رہے جو انہوں نے خود ساختہ تشریح کی بنیاد پر جاری کیا تھا تو ان حالات میں مولانا محمد احسن نانوتوی صدیقی نے درج ذیل استفتاء اسی اثر کے متعلق اس وقت کے بڑے عالم "جامع المعقول والمنقول فلسفی اور اسلام کے بڑے داعی و مناظر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله" کی خدمت میں ارسال کیا۔
‏"کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بات میں کہ زید نے بہ تتبع ایک عالم کے جس کی تصدیق ایک مفتی مسلمین نے کی تھی دربارہ قول "ابن عباس رضی الله عنه" جو درمنثور وغیرہ میں یوں ہے "إن الله خلق سبع أرضین فی کل أرض آدم کادمکم و نوح کنوحکم و إبرھیم کاإبراھیمکم و عیسی کعیسکم و نبی کنبیکم" کے متعلق یہ عبارت تحریر کہ میرا عقیدہ ہے کہ حدیث مذکورہ صحیح اور معتبر ہے اور زمین کے طبقات جدا جدا ہیں ہر طبقہ میں مخلوق الہی ہے اور حدیث مذکورہ سے ہر طبقہ میں انبیاء کا ہونا معلوم ہوتا ہے لیکن اگرچہ ایک ایک ختم کا ہونا طبقات باقیہ میں ثابت ہوتا ہے مگر ان کا مثل ہونا ہمارے خاتم النبین کے ثابت نہیں اور نہ یہ میرا عقیدہ ہے کہ وہ خاتم مماثل آنحضرت صلی الله علیه وسلم کے ہوں اس لیے کہ اولاد آدم جس کا ذکر "ولد کرمنا بنی آدم" میں ہے اور سب مخلوقات سے افضل ہے تو بلاشبہ آپ صلی الله علیه وسلم جو تمام مخلوقات سے افضل ہوئے پس دوسرے طبقات کے خاتم جو مخلوقات میں داخل ہیں آپ صلی الله علیه وسلم کے مماثل کسی طرح نہیں ہوسکتے اور باوجود اس تحریر کے یہ کہتا ہے کہ اگر شرع سے اس کے خلاف ثابت ہوگا تو مان لوں گا - میرا اصرار اس تحریر پر نہیں - پس علماء شرع سے استفسار ہے کہ الفاظ حدیث ان معنوں کے متحمل ہیں یا نہیں اور زید بوجہ اس تحریر کے کافر یا فاسق یا خارج اہل سنت و جماعت ہوتا ہے یا نہیں - بینوا و توجروا ! – ( تحذیر الناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس دیوبند - ص2)
اس کے جواب میں جو تحریر مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله نے لکھی وہ ایک مکمل رسالہ بن گیا اور "تحذیر الناس" کے نام سے چھپا - اس رسالہ کے آخر میں مولانا عبد الحئی فرنگی محلی کا جواب بھی شامل ہے اور مفتی محمد نعیم کی تائید بھی ۔حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله کے اس مدلل جواب نے بحث کا رخ ہی موڑ دیا ابھی تک تو اثر "ابن عباس رضی الله عنه" کی صحت وغیرہ پر مناظرہ ہورہا تھا ، چونکہ بظاہر اس کے صحیح نہ ہونے کی اصولی طور پر کوئی دلیل موجود نہ تھی اس لیے صحت کا انکار ممکن نہ تھا - چناچہ حضرت نانوتوی رحمه الله رقم طراز ہیں
‏"اس اثر [ابن عباس رضی الله عنه] میں علت غامضہ بھی نہیں جو اس راہ سے انکار صحت کیجئے کیونکہ اول تو امام بیہقی رحمه الله کا اس کی نسبت صحیح کہنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں کوئی علت غامضہ خفیفہ قادحہ فی الصحہ نہیں" - 12
( تحذیر الناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس دیوبند - ص28)
تاہم حضرت نانوتوی رحمه الله نے اس اثر [ابن عباس رضی الله عنه] کی ایسی تاویل و توجیہ کی کہ جس سے آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی ختم نبوت پر کوئی زد نہ پڑے اور اس کے اثر [ابن عباس رضی الله عنه] کے ازروئے اصول جرح و تعدیل صحیح ہونے کے ناوجود منکرین ختم نبوت کے استدلال ہوا میں تحلیل کردیئے اور انکار ختم نبوت جو مرزائیوں کا عقیدہ ہے اس کی راہ مسدود کردی - چناچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله نے ثابت کیا کہ آپ صلی الله علیه وسلم کی فضیلت اور بزرگی دیگر انبیاء پر خاتمیت مرتبی کی وجہ سے ہے اور خاتمیت مرتبی کا یہ تقاضا ہے کہ خاتمیت زمانی و مکانی کو تسلیم کیا جائے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خاتمیت مرتبی پہ حرف آئے گا - آپ کی اس فضیلت و برتری کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے زمانہ میں آپ کے بعد کسی کا مثیل یا تابع ہونا ناممکن ہے اور آپ صلی الله علیه وسلم سے پہلے کے جملہ انبیاء سے آپ صلی الله علیه وسلم خاتمیت مرتبی کے حوالے سے افضل و برتر ہیں - اس کی مزید وضاحت آگے آئی گی
چونکہ بنیاد مولانا محمد احسن نانوتوی صدیقی صاحب کی تکفیر تھی اور یہ اس وقت کے حالات میں ان لوگوں کی ضرورت تھی اور ادھر مولانا محمد قاسم نانوتی رحمه الله کی وضاحت اس بحث کو مکمل طور پر بند کررہی تھی اس لئے صاحبوں نے "تحذیر الناس" کی تین مختلف عبارتوں کو یکجا کرکے ایسا مضمون تیار کیا کہ جس سے کفر لازم آتا ہو اور پھر اس مزعومہ مضمون کو اہل علم اور عوام کے سامنے اس طرح بیان کیا کہ جس سے مولانا محمد احسن کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی پر الزام دھرنے کی راہ نکالی جاسکے اور اپنے غیظ و قلب کو تسکین دلاسکیں - چناچہ بعد ازاں مولوی نقی علی خان کے فرزند مولوی احمد رضا خان نے بھی اسی کو بنیاد بناکر ان باصفا اور ختم نبوت کے عقیدہ کے لیے جان کی بازی لگانے لگانے والوں کو اپنے فتوی کفر کا نشانہ بنایا۔

تحذیر الناس کی عبارت کی توضیح اور اہل علم کی آراء


مولوی احمد رضا خان بریلوی نے "تحذیر الناس" کے حوالے سے جو خود ساختہ مضمون بناکر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله پر کفر کا فتوی داغا ہے وہ کچھ یوں ہے
‏"اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا - عوام کے خیال میں تو رسول الله کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ تقدم و تاخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں" - ( حسام الحرمین - مولوی احمد رضا خان بریلوی - مکتبہ نبویہ لاہور - اکتوبر 1975ء - ص20)
اعلی حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ عبارت "تحذیر الناس" کی ہے - تحذیر الناس شروع سے آخر تک چھان مارو بعینیہ یہ عبارت ہو بہو اس طرح نہیں ملے گی - بالفرض مولوی رضا خان نے خود یہ عبارت نہیں بنائی تو جس نے یہ عبارت بنائی ہے اس نے یقینآ بہت بڑی علمی خیانت کا ارتکاب کیا ہے - تین مختلف عبارتوں کو سیاق و سباق سے کاٹ کر یوں جوڑا کہ ایک قابل اعتراض عبارت وجود میں آگئی اور اسے بنیاد بناکر حضرت نانوتوی پر انکار ختم نبوت کا اتہام جڑدیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قابل اعتراض عبارت کا پہلا حصہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ صفحہ نمبر 14 ، دوسرا حصہ صفحہ 28 اور تیسرا حصہ نمبر 3 پر موجود ہے - دراصل "تحذیر الناس" جیسی تصریحات ختم نبوت کے اثبات کے موضوع پر شاہد ہی کسی کے ہاں ملتی ہوں - یہ مسئلہ ختم نبوت سمجھنے کا ایک جامع اور مدلل مضمون ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔تحذیر الناس کی اس عبارت کا حل تو اگلے باب میں آئے گا ،یہاں حضرت نانوتوی رحمه الله پر جو عقیدہ تھوپا گیا ہے اس کے جواب میں خود حضرت نانوتوی رحمه الله کی وضاحتیں ، دوسری کتب سے آپ کا صحیح عقیدہ اور دیگر علماء و مشائخ کی تحذیر الناس کے بارے میں تصدیقات پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتی رحمه الله کا شمار ہندوستان کے ان چوٹی کے علمائے اہل سنت و جماعت میں ہوتا ہے جنہوں نے حق کی اشاعت و دفاع اور باطل کی بیج کنی کے لیے اپنی ذات کو وقف کیا ہوا تھا - کوئی بھی فتنہ ہندوستان کی حدود میں سر اٹھاتا تو مولانا دیوانہ وار تحریر و تقریر کے ذریعے خداداد علمی صلاحیتوں سے اس پر ایسے جھپٹے کہ اسے آنآ فانآ نیست و نابود کردیتے۔عیسائی مشنری پادریوں نے جب مناظروں اور مخالفتوں کا بازار گرم کیا تو مولانا نے میدان میں آکر ان کا ایسا تعاقب کیا کہ انہوں نے فرار کی راہ لی - ہندوؤں اور ملحد فلسفیوں نے جب اسلام پر اعتراض کئے تو مناظروں اور تصانیف کے ذریعے ان کی زبانیں گنگ کردیں اس کے نتیجے میں پنڈت دیانند جی سرسوتی جیسا ہندو فلسفی بھی میدان میں نہ ٹھہرسکا۔
حضرت مولانا تصانیف کثیرہ کے مالک تھے - اپنے زمانہ میں میں انہوں نے ان مسائل پر قلم اٹھایا جو زیر بحث تھے بلکہ آپ کی زیادہ تر تصانیف کسی نہ کسی استفسار کے جواب میں لکھی گئی ہیں - آپ کے مضامین و بیانات بہت دقیق اور مشکل ہیں - عوام مشکل سے ان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں - ہاں کسی ماہر علم سے اگر سمجھا جائے تو علم کا بحر بے کراں ہاتھ لگت ہے - مولوی منصور علی خان مراد آبادی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے بارے میں لکھتے ہیں
‏"میں نے جناب مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی کو خوب دیکھا ہے اور ان کی تقاریر بھی سنیں ہیں اور ان کے خیالات اور اوصاف پر غور کیا ہے - ان کا ذہن مصنفین فلسفہ کے ذہن سے عالی تھا - وہ ہر مسئلہ شرعی کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرنے پر اور مسئلہ فلسفی مخالف شرع کو دلائل عقلیہ سے رد کرنے پر ایسے قادر تھے کہ دوسرے کسی عالم کو میں نے ایسی قوت بیانیہ والا نہیں دیکھا" -
( مولانا محمد احسن نانوتوی - ڈاکٹر محمد ایوب قادری - روھیل کھنڈلڑیری سوسائٹی کراچی - س 1966ء - ص224)
ایسے عالم بے بدل سے بھلا انکار ختم نبوت ممکن تھا؟ [ہرگز نہیں] جس کی ساری زندگی دفاع اسلام میں گزری - مگر کیا کہیں اس عناد کو کہ صاحب حسام الحرمین مولوی احمد رضا خان نے ان پر بھی کفر کے فتوی کی تلوار چلادی۔
حضرت مولانا نانوتوی استاد العلماء ، مناظر اسلام اور مصنف کتب کثیرہ تھے - ان کا عقیدہ پوچھنا گویا سورج سے ضیاء کا سوال کرنا مگر برا ہو اس ضد کا کہ چوک میں کھڑے ہوکر دھائی دی جاتی ہے کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی ختم نبوت کے منکر تھے اور مرزائیوں کو انہوں نے راہ دکھلائی
آیئے مولانا ہی کے قول سے ان کا عقیدہ معلوم کرکے کجروی چھوڑدیں اور علماء ربانی کے حق میں طعن و تشنیع سے باز آئیں - چناچہ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله اپنی کتاب "مناظر عجبیه" میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت یوں فرماتے ہیں
"خاتمیت زمانی اپنا دین و ایمان ہے - ناحق کی تہمت کا البتہ کچھ علاج نہیں - سو اگر ایسی باتیں [تہمت لگانا] جائز ہوں تو ہمارے منہ میں بھی زبان ہے اس تہمت کے جواب میں ہم آپ پر اور آپ کے اہل ملت پر ہزار تہمتیں لگاسکتے ہیں" -
( مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص56)
مزید فرماتے ہیں: "اپنا دین و ایمان ہے بعد رسول صلی الله علیه وسلم کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں" -
(مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص144)
تحذیر الناس کی ایک عبارت کا غلط مطلب سمجھنے پر ایک عالم دین کو "مناظرہ عجبیه" ہی میں یوں جواب دیا
"خاتمیت زمانی کی میں نے تو توجہیہ اور تائید کی ہے تغلیط نہیں کی مگر ہاں آپ گوشہ عنایت و توجہ سے دیکھتے ہی نہیں تو میں کیا کروں - اخبار بالعلۃ مکذب اخبار بالمعلول نہیں ہوتا بلکہ اس کا مصدق موئید ہوتا ہے - اوروں نے فقط خاتمیت زمانی اگر بیان کی تھی تو میں نے اس کی علت یعنی خاتمیت مرتبی ذکر کی اور شروع تحذیر ہی میں اقتضاء خاتمیت مرتبی کا بہ نسبت خاتمیت زمانی ذکر کردیا - یہ تو اس صورت میں ہے کہ خاتم المراتب ہی مراد لیجئے اور خاتم مطلق رکھیئے تو پھر خاتمیت مرتبی اور خاتمیت زمانی اور خاتمیت مکانی تینوں اس سے ثابت ہوجائیں گے -
(مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص53)
اسی مناظر عجبیہ میں لکھا ہے
‏"خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلم ہے اور یہ بات بھی سب کے ہاں مسلم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں" -
( مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص9)
مزید فرمایا
‏"ہاں یہ مسلم کہ خاتمیت زمانی اجماعی عقیدہ ہے" -
( مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص96)
اسی مناظرہ عجبیہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ
‏"حاصل مطلب یہ ہے کہ خاتمیت زمانی سے مجھ کو انکار نہیں بلکہ یوں کہئے کہ منکروں کے لئے گنجائش انکار نہ چھوڑی - افضلیت کا اقرار ہے بلکہ اقرار کرنے والوں کے پاؤں جمادیئے - اور نبیوں کی نبوت پر ایمان ہے اور رسول صلی الله علیه وسلم کے برابر کسی کو نہیں سمجھتا" -
) مناظرہ عجبیہ - مولانا محمد قاسم نانوتوی - مکتبہ قاسم العلوم کراچی - جولائی 1978ء - ص71(
یہ تو تھی وضاحت جو خود حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله نے بیان فرمائی اور اپنا عقیدہ ختم نبوت واضح کیا - صد حیف کہ اس کے باوجود بعض حضرات حق تسلیم نہیں کرتے بلکہ اہل حق کے درپے آزار ہیں.
اس میں شک نہیں کہ حضرات اہل علم و دانش کو اپنی اپنی تحقیقات ، مطالعہ اور زاویہ نگاہ کی بنیاد پر کسی بھی دوسرے ذی علم سے اختلاف ہوسکتا ہے یہ اختلاف آج کا نہیں قرون اولی سے چلا آرہا ہے اور قیامت تک رہے گا - اسی اصول کی بنیاد پر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله سے دیگر اہل علم کو اختلاف رہا ہے اور یہ انکا حق تھا - مگر ان پر الزام لگادینا کہ وہ نعوذ بالله ختم نبوت کے منکر تھے اور ان کی وجہ سے مرزا ملعون نے دعوی نبوت کیا یہ نہ صرف خلاف حقیقت اور علمی خیانت ہے بلکہ بہت بڑا بہتان اور افتراء ہے - حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله اگر اتنی صاف وضاحت نہ بھی فرماتے تب بھی ان کے شاگرد ، علمی خدمات اور تصانیف ان کے عقیدہ پر گواہ تھیں مگر انہوں نے تو پہلے ہی سے بعد میں آنے والے ناعاقبت اندیش معترضین کے اعتراض کا شافی جواب خود مہیا فرمادیا.
جہاں تک مرزا غلام قادیانی ملعون کا تعلق ہے اس نے تو انگریز کے ایماء پر دعوی نبوت کرنا تھا اور اس کا جواز فراہم کرنے کے لیے اگر اس نے مولانا کی کہیں کسی تحریر کا حوالہ دے دیا ہو تو یہ اس کی اپنی ضرورت تھی - جس کے لئے اس نے شیخ محی الدین ابن عربی ، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ الله عليهم جیسی ہستیوں کی عبارات کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنے کی سعی نامراد کی - حد تو یہ ہے کہ ان حضرات کی عبارتوں کو پیش کرکے ان سے نبوت کے اجراء کا عقیدہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی - اسی پہ بس نہیں بلکہ مرزا ملعون نے تو احادیث نبوی صلی الله علیه وسلم پر بھی ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی - احادیث اور آثار صحابہ رضی الله عنهم اجمعین کو اپنے حق میں استمعال کرنے کی بے جا جسارت کا مرتکب ہوا - اس نے "لو کان بعدی نبیا لکان عمر" کے قول رسول صلی الله علیه وسلم کو بہانہ بناکر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی - اسی طرح قرآنی آیت بینات کو اپنے مطلب کے حصول کے لیے کئی بار استعمال کرنے کی خیانت کی
الغرض مرزا تو مرزا قادیانی تھا - اس نے جو کیا سو کیا - لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے آپ کو علماء حقانی کہلانے والے کیوں اپنی عاقبت کی فکر نہیں کرتے؟
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله کی "تحذیر الناس" تو ہے ہی ایسے موضوع پر کہ جس سے انہوں نے نہ صرف زمانی بلکہ مکانی اور بالخصوص خاتمیت رسالت مآب صلی الله علیه وسلم کو محکم دلائل سے نہ صرف ثابت کیا بلکہ اس کا حق ادا کردیا - رہا اختلاف تو اگر کسی کو ان سے زاویہ نگاہ کا اختلاف ہے یا رہا ہے تو یہ علمی بنیادوں پر ہوا ہے اور ہونا چاہیئے اور اس طرح کا اختلاف ان کی حقانیت کی دلیل ہے - مگر اس اختلاف کی بنیاد پر تعصب کا شکار ہوکر ان کی توہین کرنا انتہائی خطرناک ہے - کیونکہ "العلماء ورثة الانبياء"
مندرجہ بالاسطور میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله کی اپنی وضاحت آپ نے ملاحظہ کی جس سے ان کا ختم نبوت پر عقیدہ غبار آشکار ہورہا ہے جس کی وجہ سے اکثر علماء و مشائخ حضرت مولانا کے مداح تھے - پنجاب کی بڑی روحانی شخصیت حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی سے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله اور ان کی کتاب "تحذیر الناس" کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل جواب دیا
"میں نے تحذیر الناس کو دیکھا - میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کو اعلی درجہ کا مسلمان سمجھتا ہوں ، مجھے فخر ہے کہ میری حدیث کی سند میں ان کا نام موجود ہے - خاتم النبین کے معنی بیان کرتے ہوئے جہاں مولانا کا دماغ پہنچا وہاں تک معترضین کی سمجھ نہیں گئی ، قضیہ فرضیہ کو واقعہ حقیقیہ سمجھ لیا گیا" -
) ڈھول کی آواز - مولانا کامل الدین رتوکالوی - مصنف سرگودھا - س ، ن - ص116(
مولانا کامل الدین رتوکالوی نے اپنی کتاب "ڈھول کی آواز" میں پیر محمد کرم شاہ الازہری بھیرہ شریف کے ایک خط کا ذکر بھی کیا ہے جو کہ ان کے نام تحریر کیا گیا تھا - اس خط کی ابتداء میں پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
حضرت قاسم العلوم کی تصنیف لطیف مسمی بہ "تحذیرالناس" کو متعدد بار غور و تامل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف و سرور حاصل ہوا,علما‎ماء حق کے نزدیک حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوۃ و سلام متشابہات سے ہے اور اس کی صحیح معرفت انسانی حیطہء امکان سے خارج ہے لیکن جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے حضرت مولانا قدس سرہ کی یہ مایہ ناز تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لئے سرمہ بصیرت کا کام دے سکتی ہے" -
(ڈھول کی آواز - مولانا کامل الدین رتوکالوی - مصنف ، سرگودھا - س ، ن - ص128)
پیر کرم شاہ صاحب کا یہ خط 22 جون 1964ء کا تحریر کردہ ہے اور پھر اگست 1971ء کو دوبارہ اسکی تصدیق بھی خود پیر صاحب نے فرمائی - اس خط کا تذکرہ پیر صاحب کی کتاب "تحذیر الناس میری نظر میں" پر یوں کیا گیا
آج سے تقریبآ اکیس ، بائیس سال قبل موضع رتوکالو کے ایک مولوی کامل دین صاحب نے مجھے خط لکھا اور استفسار کیا کہ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کی کتاب "تحذیر الناس" کے بارے میں اپنی رائے سے انہیں آگاہ کروں ، انہیں مسرت و انبساط کے جذبات کا عکس آپ کو میرے اس مکتوب میں نظر آئے گا جو اس ناچیز نے اکیس ، بائیس سال قبل رقم کیا -31
(تحذیرالناس میری نظر میں - پیر محمد کرم شاہ - ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور - اشاعت اول اگست 1986ء - ص 4 ، 9)

تحذیر الناس کی عبارات کی حقیت اور توجیہ :


تحذیر الناس جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے ایک سوال کا جواب ہے جو دراصل "امکان نظیر" اور "امتناع نظیر" کے جھگڑے سے پیدا ہوا - امکان نظیر کے داعی حضرت ابن عباس رضی الله عنه کی ایک حدیث بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ ایسا ہونا ممکن ہے اور مخالفین ایسا کہنے پر انہیں منکر ختم نبوت گردانتے تھے - مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله نے حدیث کی صحت کو دلیل سے ثابت کیا مگر اس کی تاویل و توجیہ کی کہ جس کی وجہ سے عقیدہ ختم نبوت میں فرق پڑنے کی نہ صرف نفی کی بلکہ دلائل کے ذریعے ثابت کیا کہ اس حدیث کے باوجود آپ کی ذات سلسلہ نبوت و رسالت میں آخری ہے۔
امتناع نظیر اور امکان نظیر کے مسئلہ کا حل بھی بتایا کہ آپ صلی الله علیه وسلم کی ذات کے بعد آپ کے مثل ممکن بالذات ممتنع بالغیر ہے - یعنی الله قادر مطلق ہونے کے ناطے ایسا کرسکتے تو ہیں مگر ایسا خلاف "سنت الله" ہونے کی وجہ سے کرتے نہیں - گویا ممکن ہونے کے باوجود ناممکن ہے۔
حدیث مذکورہ کے صحیح تسلیم کرلینے کے باوجود عقیدہ ختم نبوت پر اثر انداز نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے لفظ خاتم کی تفصیلا تشریح فرماکر واضح کردیا کہ آپ صلی الله علیه وسلم کی ذات سلسلہ نبوت و رسالت میں آخری و حتمی ہے اس کے بعد کسی قسم کا امکان کفر ہے - اپنے عقیدہ ختم نبوت کی حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے "تحذیر الناس" میں بھی اور دوسری کتب میں بھی خوب وضاحت فرمائی جس کا ذکر اوپر کی سطور میں گذرچکا ہے - علاوہ ازیں تحذیر الناس میں یہ صراحت بھی موجود ہے
"اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے کہ تمام انبیاء کا سلسلہ آپ پر ختم ہوتا ہے" –( تحذیر الناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس ، دیوبند - س ، ن - ص14)
معترضین کا تحذیر الناس کی عبارت پر اعتراص علمی خیانت کی بدترین مثال ہونے کے ساتھ ساتھ مخالفین کی نقص علمی اور کم فہمی کی بھی غمازی کرتا ہے - تمام اعتراض کرنے والے لوگ ایک ایسی عبارت بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو "تحذیر الناس" کی متفرق عبارتوں کا مجموعہ تو ہوسکتا ہے مگر حقیقتا وہ اس کی مسلسل عبارت نہیں - متفرق عبارات کو مسلسل ایک عبارت بنا ڈالنا ایک ایسی علمی خیانت ہے کہ جس کی نظیر اس طرح کے جعل سازوں کے ہاں اگر مل سکے تو ملے ورنہ اہل علم و دیانت کے ہاں اس کی مثال نہیں - ہمارے قارئیں آگے دیکھ لیں گے کہ مختلف ٹکڑوں کو یو یکجا کیا گیا ہے کہ وہ ایک مستقل بامعنی اور انتہائی قابل اعتراض عبارت بن جاتی ہے اور ذرا سی بھی علمی سوجھ بوجھ والا شخص اس کو لکھنے کا روادار نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ اساطین علم سے اس طرح کی غلطی سرزرد ہوجائے - تین [3] مختلف مقامات کے ٹکڑوں کو اگر اپنی اپنی جگہ سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو مفہوم بالکل واضع ہوجاتا ہے اور یہی عبارتیں عقیدہ ختم نبوت کے اثبات کی قوی دلیل بن جاتی ہے - وہ قابل اعتراض عبارت جو "حسام الحرمین" اور بعض دوسری کتب مخالفین کا حصہ ہے وہ یہ ہے:
"بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے بلکہ بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو جب بھی خاتمیت محمد صلی الله علیه وسلم میں کچھ فرق نہ آئیگا - عوام کے خیال میں رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ تقدیم یا تآخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں" -
[حسام الحرمین - مولوی احمد رضا خاں بریلوی - مکتبہ نبویہ ، لاہور - اکتوبر 1978ء - ص20)
مندرجہ بالا اقتباس کا وجود معترضین کی کتب کے سوا حضرت نانوتوی رحمه الله کی تحذیرالناس یا کسی اور کتاب میں بعینہ نہیں ملتا اس طرح کی جسارت ان ہی لوگوں سے ہوسکتی ہے جن کو خوف خدا نہ ہو - چناچہ حضرت نانوتوی رحمه الله کی کتاب تحذیرالناس کی صحیح عبارت ملاحظہ ہو:
"بلکہ بالفرض سے لے کر --- بدستور باقی رہتا ہے" تک صفحہ نمبر 14 کی ایک تفصیلی عبارت کا حصہ ہے اور اپنے مقام پر سیاق و سباق کے حوالے سے ایک مستقل اور علیحدہ مضمون بیان کرتی ہے جس کی اس اعتراض سے کوئی نسبت ہی نہیں۔

عبارت کا اگلا حصہ:

"بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی ---- سے لے کر فرق نہ آئیگا" تک صفحہ 28 کی ایک واضح عبارت کا جزء ہے جو اپنے مقام پر ایک مستقل مضمون بیان کرتی ہے اور یہ حصہ وہاں بالکل واضح مفہوم کو ظاہر کرتا ہے
عبارت کا آخری حصہ: "عوام کے خیال میں ---- سے لے کر --- کچھ فضیلت نہیں" تک صفحہ 3 کی عبارت کا حصہ ہے جسے اس من گھڑت عبارت کے آخر میں لاکر پہلے سے جوڑی ہوئی دو عبارتوں کا اختتامیہ ظاہر کیا ہے ، جبکہ حقیقت میں یہ ایک تمہید ہے جہاں سے مصنف موصوف اپنی بات شروع کرتے ہیں۔اس اتنی بڑی علمی خیانت کو دیکھ کر قارئین کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ معترضین کی ذہنی سطح کیا تھی اور کس دیدہ دلیری کے ساتھ خود ایک عبارت جوڑ کر اس کو مولانا سے منسوب کیا اور یوں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمه الله اور ان کے متبعین کی طرف سے ختم نبوت کے عقیدہ کے تحفظ کے لئے ان گنت کارناموں کو عوام الناس کے دلوں سے محو کرنے کی مذموم سعی کی ہے - اب اس علمی سرقہ کی انتہا کی تفصیل ملاحظہ ہو

عبارت کا آخری حصہ:


"عوام کے خیال میں رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہے کہ تقدیم یا تآخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں"
یہ عبارت صفحہ نمبر 3 کے شروع میں یعنی تحذیرالناس کا ابتدائی حصہ ہے ، چونکہ یہ رسالہ ایک سوال کا جواب ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا اثر ابن عباس رضی الله عنه کا مضمون یعنی دیگر طبقات ارض میں اور ایسے ہی انبیاء کا یقینی ماننا ختم نبوت کے عقیدے کے منافی ہے؟
جواب میں صلوۃ و سلام کے بعد مولانا نے لکھا کہ سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ عرض کردوں کہ خاتم النبین کے معنی بیان کرنے ضروری ہیں تاکہ جواب سمجھنے میں دقت نہ ہو - سو عوام الناس تو خاتم النبین سے شاہد ختم زمانی مراد لیتے ہوں مگر اہل فہم جانتے ہیں کہ فضیلت زمانہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے - مولانا نے اس بنیادی نقطہ کی وضاحت کے لیے آیت "ولکن رسول الله و خاتم النبین" کا حوالہ دے کر ارشاد فرمایا کہ یہاں آپ صلی الله علیه وسلم کا خاتم النبین ہونا ایک بڑی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ آیت کا یہ حصہ "ماکان محمد ابا احد من رجالکم" پر عطف ہے اور "ولاکن" ماقبل معطوف کی وجہ فضیلت ہے اور اگر دیکھا جائے تو کسی زمانے کے لحاظ سے پہلے یا بعد میں آنا کوئی فضیلت نہیں رکھتا - صرف خاتم اگر آخر میں ہونے کے معنی میں ہو تو کوئی خاص فضیلت نہیں بلکہ یہ  تو ایسا وصف ہے جیسے قد و قامت ، شکل و رنگ ، حسب و نسب اور سکونت وغیرہ - اور ان تمام اوصاف کو نبوت سے تعلق نہیں کہ ان کی وجہ سے آپ کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہو - اسی طرح فقط خاتم زمانی میں کوئی فضیلت معلوم نہیں ہوتی مگر الله کے معجز کلام میں خاتم النبین کو بہت بڑی فضیلت بیان فرمایا - تو اس کا مطلب لازمآ یہ ہے کہ یہاں صرف ختم زمانی والی تعریف مراد نہیں بلکہ کوئی اور وصف بھی مراد ہے جو حقیقتآ وجہ فضیلت نبوی صلی الله علیه وسلم ہے اور وہ آپکا خاتم مرتبی ہونا ہے - اس بات کو حضرت مولانا نانوتوی رحمه الله ایک مثال سے ظاہر کرتے ہیں کہ جس طرح سورج بھی روشن اور در و دیوار بھی روشن ہیں - مگر در و دیوار کا نور آفتاب کے نور کا فیض ہے - اس لیے مقصود بالعرض اور موصوف بالذات کی اصطلاح استعمال کرکے سورج کو موصوف بالذات اور در و دیوار کو موصوف بالعرض کہا - یوں جملہ انبیاء کی نبوت کو مقصود بالعرض اور حضور صلی الله علیه وسلم کی نبوت کو موصوف بالذات قرار دے کر آپکی مرتبی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ سب نبیوں کی نبوت آپ کا فیض ہے - اس طرح آپ [منصب] نبوت کے خاتم ہیں اور حقیقی فضیلت خاتم مرتبی ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ خاتم زمانی ہونے کی وجہ سے مگر ساتھ ساتھ یہ صراحت بھی بیان فرمادی کہ آپ کا دین افضل و اکمل تھا اور دیگر جملہ ادیان کا ناسخ تھا اس لئے منسوخ ادیان کو پہلے لاکر ناسخ کو زمانی اعتبار سے بھی آخر میں کردیا گویا فضیلت حقیقی تو مرتبی خاتمیت ہی سے تھی مگر حسب ضرورت زمانی خاتمیت بھی آپ ہی کو عطا فرمادی - گویا حقیقت میں آپ کا خاتم ہونا بااعتبار فضیلت کے تھا - مگر فضیلت کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کا زمانہ بھی آخری ہو اور آپ کے بعد یہ منصب نبوت بالکل ختم ہوجائے - اس لئے آپ صلی الله علیه وسلم کی فضیلت مرتبی کی وجہ سے تاخیر زمانی اور سدباب مدعیان نبوت خود بخود لازم آجاتا ہے اور اس طرح آپ صلی الله علیه وسلم کی فضیلب دوبالا ہوجاتی ہے
اب اس قابل اعتراض عبارت کے آخری حصہ کو جو صفحہ نمبر 3 سے لیا گیا ہے ماقبل اور مابعد کے ساتھ ملاکر پڑھئے اور اعتراض کرنے والے کی کمال خیانت کو داد دیجئے
"بعد حمد و صلوۃ کے قبل عرض جواب یہ گزارش ہے کہ اول معنی خاتم النبین معلوم کرنے چاہیں تاکہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو سو عوام میں تو رسول الله صلی الله علیه وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب سے آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدیم یا تآخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں - پھر مقام مدح "ولکن رسول الله و خاتم النبین" فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے - ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس کو مقام مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت بااعتبار تآخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے - مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی کہ اس میں ایک تو خدا کی جانب نعوذبالله زیادہ گوئی کا وہم ہے - آخر اس وصف میں اور قد و قامت ، شکل و رنگ ، حسب و نسب اور سکونت وغیرہ اوصاف میں جن کو نبوت اور فضائل میں کچھ دخل نہیں میں کیا فرق ہے جو اس کو ذکر کیا اور ان کو ذکر نہ کیا - دوسرے رسول الله صلی الله علیه وسلم کی جانب نقصان قدر کا احتمال کیونکہ اہل کمال کے کمالات ذکر کیا کرتے ہیں اور ایسے ویسے لوگوں کے اس قسم کے احوال بیان کرتے ہیں: -
(تحذیرالناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس ، دیوبند - 1344ھ -ص3)
اسی عبارت کے تسلسل میں صفحہ نمبر 4 پر لکھتے ہیں:‎
‏"سو اسی طور پر رسول الله صلی الله علیه وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمایئے - یعنی آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے نبی موصوف بوصف نبوت بالغرض اور ان کی نبوت آپ کا فیض ہے پر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں - آپ پر سلسلہ نبوت مختم ہوجاتا ہے ، غرض جیسے آپ نبی الله ویسے نبی الانبیاء بھی ہیں"
(تحذیرالناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس ، دیوبند - 1344ھ -ص4)
اس خود ساختہ اعتراض کی کمزوری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود مضنف جس عبارت کو واشگاف الفاظ میں آنحضرت صلی الله علیه وسلم کی مدح و فضیلت کی انتہائی بلندی خاتمیت مرتبی کے اثبات کے لئے لائے ہیں معترض کم فہم نے اسکو دوسری لاتعلق عبارت کے ساتھ آخر میں جوڑ کر ایک بالکل دوسرا مفہوم اخذ کیا اور واضح و اجماعی عبارت کو قابل اعتراض بنادیا - داد دیجئے ایسے خیانت گر کی بصیرت کو

عبارت کا دوسرا حصہ:

یہ حصہ صفحہ نمبر 14 کی ایک طویل عبارت کا ٹکڑا ہے پوری عبارت یوں ہے:
‏"غرض پرداز ہوں کہ اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے کہ تمام انبیاء کا سلسلہ نبوت آپ صلی الله علیه وسلم پر ختم ہوتا ہے ، جیسے انبیاء گزشتہ کا وصف نبوت میں حسب تقریر مسطور اس لفظ سے آپ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا - اسمیں انبیاء گزشتہ ہوں یا کوئی اور اسی طرح اگر فرض کیجئے آپ کے زمانہ میں بھی اس زمین میں یا کسی اور زمیں میں یا آسمان میں کوئی نبی ہو تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپ صلی الله علیه وسلم ہی کا محتاج ہوگا اور اس کا سلسلہ نبوت بہر طور آپ صلی الله علیه وسلم پر مختم ہوگا اور کیوں نہ ہو عمل کا سلسلہ علم پر ختم ہوتا ہے جب علم للبشری ہی ختم ہولیا تو پھر سلسلہ علم و عمل کیا چلے - غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپ صلی الله علیه وسلم کا خاتم ہونا گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا بلکہ بالفرض آپ صلی الله علیه وسلم کے زمانہ میں بھی کہیں نبی ہو جب بھی آپ صلی الله علیه وسلم کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے - مگر جیسے اطلاق خاتم النبین اس بات کو مقتضی ہے کہ اس لفظ میں کچھ تاویل نہ کیجئے اور علی العموم تمام انبیاء کا خاتم کہیئے"
اس عبارت میں کس تناظر میں بات ہورہی ہے اور معترض کیا اعتراض کررہا ہے - اسے کج فہمی کہیئے یا کم فہمی کہ سیدھی بات کو یا تو سمجھ نہ سکے اور یا جان بوجھ کر الٹا مطلب پہنادیا ہے اور حجۃ الله فی الارض کے ظاہری اثبات کو منفی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ خاتم کے معنی فقط زمانی خاتمیت نہیں بلکہ خاتمیت مکانی ، خاتمیت زمانی اور خاتمیت مرتبی تینوں شامل ہیں بلکہ حقیقی خاتمیت تو مرتبی ہے جو باعث فضیلت ہے اور اسے صحیح سمجھ کر مان لیا جائے تو خاتمیت زمانی و مکانی خود بخود ثابت ہوجاتی ہیں اور مزید کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی
اس کے باوجود کتاب کے ابتدائی صفحات میں حضرت مولانا نانوتوی رحمه الله نے خاتمیت زمانی کو اول قرآن کی آیت "ولکن رسول الله و خاتم النبين" سے ثابت کیا اور پھر حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت کیا اور جو منکر خاتم زمانی ہو اس کو کافر کہا۔
عبارت مذکورہ بھی شروع میں خاتمیت زمانی ہی کا ثبوت ہے اور یہ صراحت بھی کہ انبیاء گزشتہ کا وصف نبوت آپ کے فیض نبوت کا محتاج ہے اور آپکے زمانے میں یا آپکے بعد کے زمانے کے انبیاء ہوں تب بھی یہ آپکی خاتمیت مرتبی سب پر مقدم اور افضل ہے - مگر آپ کا ختمی مرتبت ہونا از خود زمانی کا مطالبہ کرتا ہے اور حقیقی خاتمیت مرتبی خاتمیت زمانی و مکانی دونوں کو اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے عبارت مذکورہ میں [جو باعث اعتراض سمجھی گئی ہے] جیسا کہ اسکے ماقبل تفصیلی عبارت میں زمانی و مکانی خاتمیت کو ثابت کردیا ہے - فرمارہے ہیں کہ اگر بالفرض صرف خاتمیت مرتبی ہی ہوتی تو زمانے اور مکان کی قید کی ضرورت نہ تھی - آپ خاتم الانبیاء بالوصف ہوتے - مگر آپ کا یہ رتبہ زمانی اور مکانی دونوں کا مقتضی ہے - لہذا اس لفظ خاتم میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں اور علی العموم مرتبی زمانی اور مکانی خاتمیت تمام انبیاء پر آپ کو حاصل ہے
یہاں جملہ "بلکہ " اگر" اور "بالفرض" تینوں اپنی وضاحت کرتے ہیں - اگر انہیں ماقبل کے مضمون کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے - اکیلی عبارت تو جیسے پہلے عرض کیا جاچکا ہے
قرآن مجید کی آیت بھی قابل اعتراض بن سکتی ہے جیسے: لاتقربو الصلوۃ [نماز کے قریب مت جاؤ] اگر کوئی کوڑھ مغز شخص آیت شریفہ کے اس حصہ کو لے کر یہ رٹ لگائے کہ قرآن ہی میں ہے کہ نماز نہ پڑھو اور میں نماز نہ پڑھ کر قرآن کے ایک حکم پر تو عمل کرتا ہوں - لازمآ اہل علم کے علاوہ عام مسلمان بھی اسے احمق اور جاہل کہیں گے ، کوئی بھی اس کی اس دلیل کو قبول نہیں کرے گا - اب قابل اعتراض عبارت کے اگلے ٹکڑے کو لیجئے
‏"بلکہ بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمد میں کچھ فرق نہ آئے گا" یہ صفحہ 28 کی واضح عبارت کا ٹکڑا ہے جو اپنے سیاق و سباق کے ساتھ یوں ہے
‏"ہاں اگر خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت لیجئے جیسا کہ ہیچمدان نے عرض کیا ہے تو پھر سوا رسول صلی الله علیه وسلم اور کسی افراد مقصود بالخلق میں سے مماثلت نبوی صلی الله علیه وسلم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افراد خارجی ہی پر آپ کی فضیلت نہ ہوگی - افراد مقدرہ پر بھی آپ کی فضیلت ثابت ہوجائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی الله علیه وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا - چہ جائیکہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اس زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے"
ساری عبارت پڑھنے سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ قابل اعتراض عبارت میں اشکال تب ہوتا کہ بات خاتمیت بمعنی اتصاف ذاتی بوصف نبوت کی نہ ہوتی - یہاں تو خاتمیت مرتبی کی بات ہورہی ہے جو پہلے ثابت ہوچکی کہ مقصود بالذات ہے اور اس کے قبول کرنے سے خاتمیت زمانی خود بخود لازم آتی ہے ، جیسا کہ صفحہ نمبر 8 پر ملاحظہ فرمائے
بالجملہ رسول الله صلی الله علیه وسلم وصف نبوت میں موصوف بالذات ہیں اور سوا آپ صلی الله علیه وسلم کے اور انبیاء موصوف بالعرض - اس صورت میں اگر رسول صلی الله علیه وسلم کو اول یا وسط میں رکھتے تو انبیاء متاخرین کا دین اگر مخالف دین محمد صلی الله علیه وسلم ہوتا تو اعلی کا ادنی سے منسوخ ہونا لازم آتا ، حالانکہ خود فرماتے ہیں: "ماننسخ من آیة او ننسها نات بخير منها او مثلها" اور کیوں نہ ہو ، یوں نہ ہو تو اعطاء دین منجملہ رحمت نہ رہے - آثار غضب میں سے ہوجائے - میرے ناقص خیال میں تو وہ بات ہے کہ سامع منصف انشاء الله انکار ہی نہ کرسکے سو وہ یہ ہے کہ تقدم تآخر زمانی ہوگا یا مکانی یا مرتبی یہ تین نو عین ہیں ، باقی مفہوم تقدم و تاخراں ان تینوں کے حق میں جنس اور ظاہر ہے کہ مثل چشم و چشمہ و ذوات وغیرہ معانی لفظ عین ان تینوں میں" 45
(تحذیرالناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس ، دیوبند - 1344ھ -ص 8 ،9)
یہاں حضرت مولانا موصوف نے ختم زمانی کو لفظ خاتم کا جزء و جنس قرار دیا اور آپ صلی الله عليه وسلم کے لئے خاتمیت زمانی کو عقلآ و نقلآ ثابت کیا اور پھر یہ وضاحت کہ: "عرض پرداز ہو کہ اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے کہ تمام انبیاء کا سلسلہ نبوت آپ صلی الله عليه وسلم پر ختم ہوتا ہے" - 46
(تحذیرالناس - مولانا محمد قاسم نانوتوی - قاسمی پریس ، دیوبند - 1344ھ -ص14)
اس تفصیل کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت مولانا موصوف خاتمیت زمانی ، مکانی اور مرتبی تینوں کو جناب رسالت مآب صلی الله علیه وسلم کی ذات بابرکات کے لئے ضروری سمجھتے ہیں مگر حقیقی فضیلت مرتبی کی ہے اور زمانی اور مکانی اس کی وجہ سے خود بخود لازم آتی ہیں - اب اس مرتبی خاتمیت کو واضح کرنے کے لئے عبارت مذکورہ صفحہ نمبر 28 میں "بلکہ " اگر " بالفرض" کہہ کر یہ کہا کہ کوئی نبی پیدا ہو یعنی ایسا ہے تو نہیں ، ہو نہیں سکتا اور ہونا ممکن بھی نہیں کہ خاتمیت مرتبی کے لئے خاتمیت زمانی و مکانی لازم ہیں - پس اگر ایسا ہوتا تب بھی نہ ہوتا اور ہوسکتا ہی نہیں
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ساری وضاحت کے بعد اس طرح کے مفروضہ کے بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی - تو واضح رہے کہ تحذیرالناس مسئلہ ختم نبوت کے ثبوت کے لئے نہیں لکھی گئی بلکہ "امکان نظیر" اور "امتناع نظیر" کے جھگڑے میں امکانیوں کی طرف سے "اثر ابن عباس رضی الله عنه" كو بطور دلیل پیش کرنے پر مخالفین کا ان پر الزام کفر لگایا گیا اور پھر اس حدیث ہی کے ماننے والوں کو کافر قرار دیا گیا - اس ضمن میں تحذیرالناس میں یہ بات ثابت ہوئی کہ حدیث صحیح ہے اس کے مضامین عین اسلامی عقیدہ ہیں اور طبقات منجملہ انبیاء کی مثل تو ہوسکتے ہیں مگر طبقہ اخری میں مثل نبی صلی الله علیه وسلم کوئی نہیں ہوسکتا اور اگر ہوتا بھی آپ صلی الله علیه وسلم کی خاتمیت مرتبی برقرار رہتی مگر خاتمیت زمانی و مکانی کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن نہیں
تحذیرالناس اپنے موضوع پر انتہائی واضح اور مدلل ہے - معترضین یا تو اسے سمجھ نہیں سکے یا سرے سے پڑھا ہی نہیں اور یا پڑھ کر اور سمجھ کر بغض و عناد کی بناء پر حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله کی علو شان کو ماند کرنے کی سعی لاحاصل کی۔یہ حقیر سی کوشش ان سادہ لوح مسلمانوں کی توجہ حقیقت کی طرف مبذول کرانے کے لئے جو حق کے متلاشی ہوں اور انہیں گمراہ کیا جارہا ہو - 

 مکتوب حضرت پیر محمد کرم شاہ صاحب بھیروی:
نحمده و نصلی علی صفوة الخلق حبیب الاله خاتم النبیین و علی آله واصحبه و اصفیاء امته و علماء ملته اجمعین الی یوم الدین!
حضرت قاسم العلوم کی تصنیف لطیف مسمی بہ تحذیر الناس کو متعدد بار غور و تامل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف و سرور حاصل ہوا - علماء حق نے نزدیک حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوة و سلام متشابہات سے ہے اور اس کی صحیح معرفت انسانی حیطہء امکان سے خارج ہے لیکن جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے حضرت مولانا قدس سرہ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمہء بصیرۃ کا دے سکتی ہے - رہے فریفتگان حسن مصطفوی تو ان کے بے قرار دلوں اور بے تاب نگاہوں کی وارفتگیوں میں اضافہ کا ہزار سامان اس تحذیر الناس میں موجود ہے آپ نے اپنے علمی دقیق اور محققانہ انداز میں یہ واضح کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ ہر قسم کا کمال علمی ہو یا عملی ، حسی ہو یا معنوی ، ظاہری ہو یا باطنی حضور صلی الله علیه وآله وسلم کا ذاتی کمال ہے اور جہاں کہیں کم و بیش اس کی جلوہ نمائی ہے وہ اثر نظر فیض حبیب کبریا ہے - علیه اجمل التحیة واطیب الثناء
اسی طرح صفت نبوت و رسالت سے نبی رحمت صلی الله علیه وآله وسلم متصف بالذات ہیں اور حضور کے علاوہ جس کو یہ شرف بخشا گیا ہے اس کے لیے حضور صلی الله علیه وسلم کی ذات ستودہ صفات واسطہ فی العروض ہے اسی طرح تمام وہ علوم جو مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کرام علیهم السلام اور رسل عظام کو دیے گئے نبی کریم علیه الصلوۃ والتسلیم کا قلب میزان سب علوم الاولین والآخرین کا جامع اور امین ہے کیونکہ الله تعالی کی صفت علم روح محمدی صلی الله علیه وآله وسلم کی مربی ہے - اسی ضابطہ اور مسلم قاعدہ کی روشنی میں مولانا قاسم نانوتوی قدس سرہ خاتم النبیین کی صفت کی تخلیق فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ختم نبوت کے دو مفہوم ہیں ایک وہ ہے جہاں تک عوام کی عقل و خرد کی رسائی ہے اور دوسرا وہ ہے جسے خواص ہی خداداد نور فراست سے سمجھ سکتے ہیں - عوام کے نزدیک تو ختم نبوت کا اتنا ہی مفہوم ہے کہ حضور پرنور صلی الله علیه وآله وسلم آخری نبی ہیں اور حضور کے بعد اور کوئی نبی نہیں آسکتا اور بے شک یہ درست ہے اس میں کسی کو کلام نہیں اور نہ کسی کو مجال شک ہے اور اس میں شک کرنے والا دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہے جس طرح دوسری ضروریات دین سے انکار کرنے والا لیکن اس کے علاوہ ختم نبوت کا دوسرا مفہوم بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس طرح موصوف بالعرض کی علت اتصاف کا تجسس کیا جائے تو تلاش و جستجو انسان کو اس موصوف تک لے جاتی ہے - جو اس صفت سے موصوف سے موصوف بالذات ہو اور اس تک پہنچنے کے بعد تلاش و تجسس کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے - مثال کے طور پر آپ غور فرمایئے ، عالم کی تمام اشیاء صفت وجود سے متصف ہیں لیکن صفت وجود ان میں بالذات نہیں پائی جاتی بلکہ بالعرض پائی جاتی ہے ، اب اس صفت وجود سے متصف ہونے کی ہم تلاش شروع کریں گے تو یہ سلسلہ ذات باری تعالی تک پہنچے گا جو بالذات صفت وجود سے متصف ہے اور یہاں پہنچ کر یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا ، ورنہ ماننا پڑے گا کہ ذات خداوندی صفت وجود سے بالذات متصف نہیں جو صراحۃ باغیانہ حرکت ہے اس لیے جیس وصف وجود کا سلسلہ موجود بالذات پر آکر ختم ہوگیا - اسی طرح ہر معروض بالعرض کا سلسلہ موصوف بالذات پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے
اسی طرح تمام انبیاء کرام علیهم السلام جو صفت نبوت سے بالعرض موصوف ہیں کی وجہ اتصاف بصفۃ النبوۃ کا سراغ لگایا جائے تو فہم رسا اس ذات قدسی صفات (ذات پاک آں والا صفات مراد ہے) تک پہنچ کر رک جاتی ہے جیسے حریم کبریا سے رحمۃ للعلمینی کی خلعت مرحمت ہوتی ہے اور جس کے سر مبارک پر خاتم النبیین کا نورانی تاج نور افشاں ہے گویا عوام کی قاصر نگاہیں صرف انجام کار حضور کی خاتمیت کو سمجھ سکیں لیکن مقبولان بارگاہ صمدیت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حضور مبدا مآلا دونوں طرح سلسلہ نبوت کے خاتم ہیں - اللهم صلی علی سیدنا و مولانا محمد خاتم الانبیاء والمرسلین و علی اله وصحبه و اتباعه و بارك وسلم الی یوم الدین
ختم نبوت کا یہ ہمہ گیر مفہوم جو مبداء اور مآل ابتداء اور انتہاء کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اگر امت مرزائیہ کی علمی سطح سے بلند تر ہو تو اس میں کسی کا کیا قصور؟
الله تعالی اپنے محبوب مکرم صلی الله تعالی علیه وآله وسلم کے طفیل ہمیں جادہ مستقیم پر ثابت قدم رکھے - آمین ثم آمین
مہر : دستخط محمد کرم شاہ من علماء الازہر الشریف ، سجادہ نشین بھیرہ ، ضلع سرگودھا 11 صفر المظفر 1384ھ - 22 جون 1964ء
یہ دستخط میرے ہی ہیں اور مہر بھی لگائی ہے.
محمد کرم شاہ من علماء الازہر الشریف بھیرہ
ہذا کلہ صحیح عندی اس سے ختم نبوت ثابت ہے نہ کہ اجرائے نبوت.
ابو سعید غفرله : مدرس مدرسہ سعیدیہ رضویہ ، مسجد کھجیوالی ، للیانی ، ضلع سرگودھا - 8 اگست 1971ء
بشکریہ : http://www.ownislam.com/

No comments:

Post a Comment