Friday, July 26, 2013

اقبال اور ملا

ایک صاحب  نے فرمایا ہیں

”کبھی کسی نے سوچا کہ اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے کیوں بھری ہے؟ اس لیے کہ وہ ماضی میں زندہ رہتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں سےنفرت کرتا ہے اور انہیں جہنم کی وعید دیتا ہے۔“

اب مسئلہ یہ ہے کہ اوّل تو اقبال کی پوری شاعری ملاّ کی مذمت سے بھری ہوئی نہیں ہے۔ آپ اقبال کی اردو کلیات سے ملاّ کے بار ے میں بمشکل دس بارہ شعر نکال کر دکھا سکتے ہیں۔ پھر مزید دشواری یہ ہے کہ اقبال نے کہیں بھی ملاّ کی مذمت نہیں کی ہے۔ دراصل اقبال کو ملاّ کے کردار سے گہری ”شکایت“ ہے‘ اور شکایت و مذمت اور ان کی نفسیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مگر اقبال کو ملاّ سے شکایت کیا ہے؟ آیئے اس شکایت کا مرحلہ وار مطالعہ کرتے ہیں۔ اقبال کی ایک چار مصرعوں پر مشتمل نظم ہے جس کا عنوان ہے ”ملاّئے حرم“۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں

عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
تری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
اس نظم میں اقبال کو ملاّ سے شکایت یہ ہے کہ وہ ”پہلے کی طرح“ خدا شناس یا ”عارف بااللہ“ نہیں رہا‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے انسان شناسی یا خودشناسی کی اہلیت کھو دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک آدمی کا مقام کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی اشرف المخلوقات ہے۔ مسجود ملائک ہے۔ اس کی نماز میں جلال اور جمال اس کی اسی حیثیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں ملاّ کے لیے اقبال کا مشورہ یہ ہے کہ اسے خداشناسی کے ہدف تک پہنچنے کے لیے خود شناسی پیدا کرنی چاہیے تاکہ اس کی نماز میں جلال و جمال پیدا ہوسکے اور اس کی اذان اقبال کی سحر یعنی غلبہ اسلام کی پیامبر بن سکے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال نے ملا کی مذمت کی ہے یا اس سے گہرے تعلق کی بنا پر شکایت کی ہے؟
خودشناسی اور خدا شناسی سےمحرومی معمولی بات نہیں۔ اس سےبڑ ے بڑے مسائل جنم لیتےہیں۔ اقبال کا ملاّ چوں کہ خداشناس نہیں رہا اس لیے وہ صرف تقریروں پر اکتفا کرنےلگا ہے اور اس نے”زورِ خطابت“ کو اپنےاور مسلمانوں کےلیے کافی سمجھ لیا ہے۔ اقبال نےاس امر کی بھی شکایت کی ہے‘کہتے ہیں؛
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
ظاہر ہے کہ ’’مستی گفتار‘‘ میں مبتلا ہونے کا نتیجہیہ نکلتا ہے کہ ’’قول‘‘ ’’عمل‘‘ کا متبادل بن جاتا ے۔ انسان کو لگتا ہے کہ اس کی گفتگو ہی ہر مسئلے کا حل ہے۔ اقبال کی نظراس مسئلے پر بھی ہے‘ چنانچہ انہوں نے کہا ہے۔

آہ اِس راز سےواقف ہے نہ ملاّ نہ فقیہ
وحدت افکار کی ب ے وحدت کردار ہے خام
مطلب یہ ہے کہ جب تک قول عمل نہ بن جائے اور عمل میں ایک قرینہ نہ پیدا ہوجائے اُس وقت تک فکر کا بھی کوئی خاص مفہوم نہیں‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی فکر سےخود فریبی پیدا ہوسکتی ہے۔ وہ خود فریبی جو ہند کےملا ّکو لاحق ہوئی۔ اقبال کےاپنےالفاظ ہیں:۔

ملاّ کو جو ہے ہند میں سجد ے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
صرف یہی نہیں‘ اسےملوکیت بھی اسلامی اسلامی سی لگنےلگتی ہے۔ اس معاملے کی طرف اشارہ کرتےہوئے اقبال نےشیطان کی زبان سےکہلوا دیا ہے:۔

یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
ظاہر ہے کہ جس کردار میں اتنی کمزوریاں در آئی ہوں اس کے پاس فراست تو نہیں ہوگی ‘چنانچہ اقبال نےملاّ کےخلاف یہ شکایت بھی درج کرائی ہے:۔
ملاّ کی نظر نورِ فراست سےہے خالی
مگر ان تمام باتوں کےباوجود اقبال ملا ّسےتعلق نہیں توڑتے۔ اِس کا ثبوت ان کی شکایات ہیں۔ مذمت اور شکایت کی نفسیات میں بڑا فرق ہے۔ مذمت لاتعلقی کےساتھ کی جاتی ہے اور شکایت تعلق کےساتھ۔ لیکن ملا ّکےکردار کا معاملہ اقبال کےیہاں اور بھی گہرا ہے۔
دراصل اقبال کےیہاں ”ملاّ“ اور ”مجاہد“ دو الگ شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی شخصیت کےدو پہلو ہیں۔ مجاہد ملاّ کا عروج ہے اور ملاّ مجاہد کا زوال۔ یعنی اقبال کےیہاں ملاّ جب خود شناس ہوجاتا ہے تو وہ مجاہد بن جاتا ہے‘ اور جب مجاہد نسیان میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ ملاّ کےکردار میں ڈھل جاتا ہے۔ اقبال کا ایک شعر ہے:۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملاّ کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
مگر اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ ملاّ کےلیے اذان دینا ایک کام ہے ‘ ایک جاب ہے جس کا اسے معاوضہ ملتا ہے۔ اس کے برعکس مجاد کے لیے اذان ایک وجودی حقیقت ہے‘ جان کا سودا ہے‘ اس بات کا اعلان ہے کہ مجاہد وجود نہیں رکھتا‘ صرف اللہ وجود رکھتا ہے۔ اور اگر مجاہد کا وجود ہے تو صرف حق کی گواہی دینےکےلیے۔ اقبال کےاس شعر سےیہ مفہوم بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ملاّ اور مجاہد کی فکری کائنات ایک ہے۔ ان کی لغت ایک ہے۔ لیکن اس کائنات میں مجاہد اسلام کی روح اور ملاّ جسم کی علامت ہے۔ یعنی ملاّ محض لفظ ہے اور مجاہد اس لفظ کا مفہوم۔ البتہ یہ بات طے شدہ ہے کہ ملاّ اسلام اور اقبال کی فکری کائنات کا ایک ”ناگزیر“ کردار ہے۔ اس کی جگہ نہ کوئی ”مسٹر“ لے سکتا ہے نہ کوئی میجر جنرل یا جنرل۔ مگر پھر مسئلے کا حل کیا ہیے؟ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ملاّ کو مجاہد بننےپر مائل کیا جائے‘ اس کےسوا مسئلے کا ہر حل غلط اور فضول ہے۔ مگر ملاّ کےسلسلے میں اقبال کا سب سےمعرکہ آراءشعر تو رہ ہی گیا۔ اقبال نےکہا ہے:۔

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو اس کےکوہ و دمن سےنکال دو
اس شعر میں اقبال نےملاّ کو غیرتِ دین کی علامت کےطور پر پیش کیا ہے۔ بلاشبہ اس کا حوالہ افغانی ہیں مگر اقبال کےیہاں ملاّ کا کردار عالمگیر یا عالم اسلام کے حوالے سے یونیورسل ہے۔ چنانچہ ملا صرف افغانیوں کے لیے نہیں تمام مسلمانوں کے لیے اہم ہے‘ اس لیے کہ وہ قرآن وحدیث کا حافظ ہے ‘ دینی فکر اور مذہبی ورثے کی منتقلی کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ ان امور پر مطلع ہے جس سے محض آگاہ ہونے کے لیے بھی ایک عمر اور طویل تربیت درکار ہے۔ اقبال بھی ملا کو بدلنا یا ریپلیس کرنا نہیں چاہتے‘ اس لیے انہوں اس کی شکایات درج کرائی ہیں‘ مذمت نہیں کی۔ اور خواہش کی ہے کہ کاش وہ ایک بار پھر خودشناس اور خدا شناس ہوجائے۔ یعنی اقبال کا مجاہد اور مومن بن جائے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, July 24, 2013

دلنشین اور آسان ترین ترجمہ قرآن

رمضان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے، وه  مسلمان جو سارا سال اس انداز سے گزارتا ہے کہ اسے الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونے کا خیال تک نہیں آتا مگر رمضان کا چاند نظر آتے ہی  ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ وہ  بھی اپنے دین  و ایمان کی فکر کرتا نظر آتا ہے. لوگ وہ سبق جو دن رات کے جھمیلوں ، پریشانیوں میں کہیں بھولی بسار گئے ہوتے ہیں اس کو دوہراتے ہیں  ،رمضان کی برکات سے  ہر شخص اپنی ہمت و استعداد کے مطابق ان سے مستفید ہوتا ہے،   نماز، روزہ، صدقہ کے اہتمام کے علاوہ   اس   مہینہ میں قرآن کے ساتھ  بھی لوگوں کا تعلق بڑھ جاتا ہے، بہت سے لوگ ترجمہ و تفسیر پڑھ کر اسکے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، کئی دوست اس سلسلے میں مشورہ بھی لیتے رہتے ہیں کہ  کوئی ایسا ترجمہ بتائیں جو  مستند بھی ہو اورہمیں آسانی سے سمجھ بھی آجائے۔ کچھ عرصے تک تو تھوڑی الجھن ہوتی تھی کہ    قرآن کریم کا  کونسا ترجمہ تجویز کیاجائے؟ کوئی ایسی  مختصر  اور آسان تشریح ہو جو قرآن کا بنیادی پیغام ان کے دل میں اُتار دےاور ضعیف روایات اور فقہی اختلافات سے ہٹ کر مستند بات اور قول مختار ان کے ذہن نشین ہوجائے؟ الجھن کی وجہ  یہی تھی کہ  ہمارے ہاں  قرآن کے رائج  اردو    تراجم  میں عموما  مترجم کا   انداز خالص  علمی اور  فقہی  ہوتاہے ،پیش کردہ ترجمۂ قرآن "عربک اردو" یا "پرشین اردو" میں ہوتا   اور سامعین "اینگلو اردو" کے عادی ، مزید علماء حضرات  ترجمہ میں  فارسی اور عربی کے عالمانہ الفاظ اور خوبصورت ترکیبیں بلا تکلف استعمال کرتے  ہیں   اور یہ سب  عموما  ایک غیر عالم ،جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لوگوں  یا  ایسے لوگوں  کے لیے  جنکا دینی علوم  اور  کتابوں  سے قریبی  تعلق نہ ہو ' سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ جو  قرآن کے ترجمہ اور پیغام کو اپنے طور پر پڑھنے سمجھنے سے قاصر ہیں ہمارے نزدیک اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔اکابر علماء کے تراجم علم و ادب کے اعلی معیار پر ہیں، ان کا انداز تحقیق اور اسلوب بیان محتاج بیان نہیں ، لیکن ہماری قوم ان کو نہیں سمجھ سکی۔ ہمارے ہاں اردو  زبان میں  چند سال پہلے تک  ایسا ترجمہ و تشریح دستیاب نہ تھی جو ایک طرف تو علمی و تحقیقی اعتبار سے مستند ہو، دوسری طرف اس کی زبان اتنی آسان اور معیاری ہو کہ کم پڑھے لکھے افراد اور جدید تعلیم یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والے، سب کیلئے یکساں طور پر مفید اور کار آمد ہو۔ علم و ادب کے امتزاج کی سب سے زیادہ جس موضوع کو ضرورت تھی، اس کی طرف اتنی ہی کم توجہ کی جارہی تھی اس  لیے  ہم اپنے حلقے میں  ترجمہ کے لیے  مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن کی  پڑھنے کا کہہ دیتے تھے اور تفسیر کے لیے تفسیر عثمانی اور تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع کرنے کا کہتے۔ مولانا فتح محمد جالندھری صاحب کا ترجمہ وہی ترجمہ ہے  جو  مارکیٹ میں  شیخ عبدلارحمن السدیس اور شیخ عبدالباسط  کے اردو ترجمہ والے   قرآن کی کیسٹ اور سی ڈیز میں بھی  استعمال کیا گیا ہے۔۔ چند سال پہلے عصر حاضر کی ایک عبقری صفت اور  نابغہ روزگار شخصیت جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے  قرآن کے تراجم   پر کام شروع کیا ، اس سلسلے کی آپ کی پہلی کاوش  آپ کا  انگریزی میں ترجمۂ قرآن کریم  تھا جو تین سال قبل چھپ کر منظر عام پر آیا۔ یہ ایک  ایسی ضرورت تھی جو مسلمانوں اور انگریزوں کے  ایک دوسرے سے متعارف ہونے سے لے کر آج تک پوری نہ ہوئی تھی۔ اس سے پہلے انگریزی میں جو تراجم موجود تھے وہ کسی ایسے عالم کی کاوشوں کا نتیجہ نہ تھے جو علومِ دینیہ میں رسوخ کے ساتھ انگریزی زبان پر بھی براہِ راست اور بذاتِ خود عبور رکھتا ہو۔ وہ  یا تو غیر مسلموں کے تھے یا نو مسلموں کے، یا پھر ایسے اہلِ اسلام کے جو علومِ عربیت اور علومِ دینیہ پر اتنی گہری نظر نہ رکھتے تھے جو اس نازک علمی کام کیلئے اور پھر اس کام کے معیار و مستند ہونے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔    اس کے بعد آپ نے   بہت سے لوگوں کے مطالبہ  اور  خود اردو زبان میں موجود  تراجم کی اس کمی کو محسو س کرتے ہوئے   قرآن کریم کا اردو ترجمہ لکھنا  شروع کیا جو حال  ہی میں  "آسان ترجمۂ قرآن" کے نام سے  چھپ کر سامنے آیا۔

ترجمہ کی چند خصوصیات :۔

قرآن کریم کے ترجمے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک تو دینی علوم ،  خصوصاً علوم عربیت میں مہارت اور دوسرے متعلقہ زبان پر عبور اور اس کی باریکیوں پر گہری نظر۔علمائے اسلام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر کیلئے پندرہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔ عقائد، قرأت، حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسباب نزول، ناسخ و منسوخ اور سات علوم عربیت (یعنی صرف و نحو، لغت، اشتقاق اور معانی، بیان، بدیع)۔ علمی حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت کی اب تک کی ساری زندگی دارالعلوم کراچی  میں  انہی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں گزری ہےاور ادبی اعتبار سے آپ کا قلم نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا تحریر، تحقیقی مضامین ہوں یا تفریحی یادداشتیں ہر میدان میں لوہا منوا چکا ہے ۔ آپ کے متعدد شہرۂ آفاق سفرنامے، کالموں کے مجموعی اور شخصی خاکے آپ کے زورِ قلم کی بہترین مثال ہیں۔ ترجمہ  کے لیے علوم عربیت   میں مہارت سے  ادب میں مہارت بھی ذیادہ  اہم ہے، ہمارے ہاں عوام   کو اسی لیے  غیر عالم  اسلامی اسکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز کے درس قرآن وغیرہ سننے ، پڑھنے سے  منع کیا  جاتا ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ لوگ اردو ادب کے تو بہت ماہر ہوتے ہیں ، اچھے کہانی نویس، منظر نگاری کرنے والے اور انشاء پرداز ہوتے ہیں   لیکن انکی  اوپر گنائے گئے علوم خصوصاً "علم الفقہ" سے ناواقفیت اور عربی  زبان  میں عدم مہارت  کی وجہ  سے  "آیات الاحکام" کی تفسیر میں انکی  کی جانے والی غلطیوں سے عوام کے دینی  نقصان کا اندیشہ ہوتا  ہےجبکہ علمائے کرام کے تراجم یا دروس اس خامی اور عیب سے محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دور طالب علمی میں انہی علوم میں مہارت حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔  تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ قرآن دونوں خوبیوں کو لیے ہوئے ہیں،  مزید آپ  نے اپنے اس ترجمہ قرآن میں بہت سی ایسی  چیزوں  کو بھی شامل کیا  جن کی دوسرے تراجم میں کمی محسوس کی جاتی   تھی  ۔

سورتوں کا تعارف:۔

ہر سورت سے پہلے تعارف کے عنوان سے "خلاصۂ سورت" یا "سورت کا مرکزی پیغام" یا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں سورت کا ضروری تعارف ، اس میں بیان ہونے والے مضامین واقعہ کا خلاصہ اور پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ تعارف میں   مصنوعی ربط کے بجائے حقیقی اور واقعی انداز میں قرآن کریم کی تالیفی ترتیب اور معنویت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شروع میں ایک  مبسوط مقدمہ بھی دیا گیا ہے جو مطالعۂ قرآن کیلئے بنیاد کا کام دیتا ہے۔ 

 مختصر تشریحات :۔

ترجمہ پڑھنے کے دوران قرآن کریم کے طالب علم کو جہاں جہاں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آسکتی تھی، وہاں مستند علمی تشریحات کے ذریعے اس کی تشنگی دور کی گئی ہے۔ ان تشریحات میں بڑی خوبصورتی سے رسمی تعبیرات اور اختلاف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ 

سلیس و دلنشین انداز تحریر :۔ 

 بیان زبان و بیان پر آپ کی گرفت اور ٹھیٹھ محاوراتی ٹکسالی اردو پر عبور کے ساتھ آپ کے فطری ادبی ذوق کی حسین پرچھائیں آپ کے اس ترجمے میں واضح نظر آتی ہے۔ کچھ ترجمے تو ایسے بے ساختہ اور برمحل ہیں کہ سبحان اللہ! پڑھنے والا جھوم ہی جائے۔ مثلاً:

هَيْتَ لَكَ

"آ بھی جاؤ" (یوسف:23)۔

فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ

"ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔" (الشمس:14)۔


 تراکیب کے بامحاورہ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:۔

نَسْيًا مَنْسِيًّا

بھولی بسری

قِسْمَةٌ ضِيزَى

بھونڈی تقسیم

سَبْحًا طَوِيلًا

لمبی مصروفیت

 لفظی اور آزاد ترجمہ کی درمیانی روش کی عمدہ مثالیں:۔

مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ۔"

کیا بات ہے؟ مجھے ہُدہُد نظر نہیں آرہا۔" (النمل:20)

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ۔

""اب تمہیں جو کچھ کرنا ہے، کرلو۔" (طٰہٰ:72)

وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ۔

"اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی نہیں آنے دیا۔" (الانعام:82)
 اصل الفاظ کے قریب رہتے ہوئے معانی و مفاہیم کی بھرپور وضاحت  کس قدر مشکل کام ہے؟ اس کا اندازہ اہل علم کو بخوبی ہے۔ ذیل کی کچھ آیات دیکھیے، مترجم کس روانی اور پُر کاری سے اس گھاٹی سے گزرے ہیں:.

فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا۔

"پھر جب کھانا کھاچکو تو اپنی اپنی راہ لو۔" (الاحزاب:53)

فَنَادَوْا وَلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ۔

"تو انہوں نے اس وقت آوازیں دیں جب چھٹکارے کا وقت رہا ہی نہیں تھا۔" (سورۃ ص:3)

وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا۔

"بلکہ یہ کہتے پھریں گے کہ خدایا! ہمیں ایسی پناہ دے کہ یہ ہم سے دور ہوجائیں۔" ( الفرقان:22) اسی طرح

وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔

"اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔" (البقرۃ:7)۔
 دوبارہ پڑھیے: "اور ان کا کام بس یہ ہے۔۔۔۔" عربیت کا ذرا بھی ذوق (یا چسکا) ہو تو سچ پوچھیے لطف ہی آجاتا ہے۔ یہی "حصر" ایک اور جگہ بھی ہے جہاں دوسری طرح کے الفاظ سے یہی معنی ادا کیا ہے:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (اسراء:85)

"اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ تھوڑا ہی سا علم ہے۔"
 پہلی آیت میں "بس یہ ہے۔۔۔" اور دوسری جگہ "تھوڑا ہی سا۔۔۔" کے ذریعے کس خوبصورتی سے زبان و بیان کی باریکیوں کو نبھایا گیا ہے۔ جملوں کی سادگی ملاحظہ فرمائیں۔

قَالُوْا یٰۤاَبَانَاۤ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَكْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْ كُنَّا صٰدِقِیْنَ۔

کہنے لگے " اباجی ! یقین جانئے، ہم دوڑنے کا مقابلہ کرنے چلے گئے تھے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس ہی چھوڑ دیا تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا اسے کھاگیا۔ اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے، چاہے ہم کتنے ہی سچے ہوں۔

اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔

گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں ۔ پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔

اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۝۷۷ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَهٗ١ؕ

کیا انسان نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا تھا؟ پھر اچانک وہ کھلم کھلا جھگڑا کرنے والا بن گیا۔ ہمارے بارے میں تو باتیں بناتا ہے اور خود اپنی پیدائش کو بھول بیٹھا ہے۔

مختلف تراجم کے ساتھ تقابل:۔

 عربی کا مشہور مقولہ ہے: "و بضدها تتبين الاشياء" امثال یا اضداد کے ساتھ موازنے سے ہی کسی چیز کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ اس اُصول کی روشنی میں ہم "آسان ترجمۂ قرآن" کی چند منتخب آیات کا پانچ مشہور معاصر تراجم کے ساتھ تقابل کریں اور اس تقابل کو کسی طرح کی تنقیص و تحقیر یا کسی کی خدمت کا درجہ گھٹانے کے بجائے محض طالب علمانہ تحقیق اور ترجیحی خصوصیات کے تفقد تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ ایک اچھا مطالعہ ثابت ہوگا۔

 پہلی مثال:

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لقمان:20

"اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔" (مولانا مودودی)
 "اور تمہیں بھرپور دیں اپنی نعمتیں ظاہر اور چھپی۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
 "اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور پوری کررکھی ہیں اس نے تمہارے اوپر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک) 
"اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری پوری نچھاور کی ہیں۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

 دوسری مثال:۔

وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ (الاحزاب: 04)

"نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظہار کرتے ہو، تمہاری ماں بنایا ہے۔" (مولانا مودودی)
 "اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ) کی مائیں نہیں بنایا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
 "اور نہیں بنایا اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
 "اور تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کے برابر کہہ دو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (مولانا احمد رضا خاں بریلوی)
 "اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور تم جن بیویوں کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دے دیتے ہو، ان کو تمہاری ماں نہیں بنایا۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

ظہار کے حقیقی معنی و مفہوم کو جس میں بیوی کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دینے کا عنصر لازمی طور پر شامل ہے، جس خوبصورتی سے حضرت نے ادا کیا ہے، اس کی معنویت کو کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس کے پس منظر سے آگاہ ہیں۔ تیسری مثال:.

نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ (ص:44)

"(ایوب علیہ السلام) بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا۔" (مولانا مودودی)
"کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع کرنے والا ہے۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"بہت خوب بندے تھے بے شک وہ رجوع کرنے والے تھے۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"بہترین بندہ اور یقیناً تھا وہ بہت زیادہ رجوع کرنے والا (اپنے رب کی طرف)" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"وہ بہترین بندے تھے، واقعی وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)
"اواب" کا ترجمہ "خوب لو لگانے والا" ایسا ہے کہ کسی تبصرے کی ضرورت ہی نہیں۔ آخری مثال : "ترجمہ اور ترجمانی کا فرق" ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ (یوسف:24)

"وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف علیہ السلام بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان کو نہ دیکھ لیتا۔" ( مولانا مودودی)
"اور بے شک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا۔" (مولانا احمد رضا خان بریلوی)
"اس عورت نے یوسف کی طرف کا قصد کیا اور یوسف اس کا قصد کرتے اگر وہ اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھتے۔" (مولانا محمد جونا گڑھی)
"اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا، اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے تو جو ہوتا   ہوتا۔" (مولانا فتح محمد جالندھری)
"اور یقیناً بڑھی وہ اس کی طرف اور بڑھتے وہ (یوسف علیہ السلام) بھی اس کی طرف، اگر نہ دیکھ لیتے وہ برہان اپنے رب کی۔" (مولانا سید شبیر احمد، قرآن آسان تحریک)
"اس عورت نے تو واضح طور پر یوسف (کے ساتھ برائی) کا ارادہ کرلیا تھا اور یوسف کے دل میں بھی اس عورت کا خیال آچلا تھا، اگر وہ اپنے رب کی دلیل کو نہ دیکھ لیتے۔" (آسان ترجمۂ قرآن)

سبحان اللہ! ترجمہ ایسا کیا ہے کہ بھرپور ترجمانی کے ساتھ تمام اشکالات و جوابات کا از خود جواب ہوگیا ہے بلکہ سرے سے اشکالات پیدا ہی نہیں ہونے دیے گئے۔ ۔
 ہماری یہ تحریر کوئی مقالہ نہیں بلکہ اس میں اس ترجمہ قرآن کی چیدچیدہ خوبیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، باقی اس کو پڑھنے والے اس سے ملنے والے سرور اور نفع کا خود اندازہ کرلیں گے۔غرضیکہ کہا جاسکتا ہے اس ترجمہ نے علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین امتزاج نے اردو میں ترجمۂ قرآن کی وہ کمی بڑی حد تک پوری کردی ہے جس سے عصری اردو کا دامن خالی تھا اور اردو میں دستیاب دینی ادب کے ماتھے پر وہ جھومر سجادیا گیا ہے جو حسین ہونے کے باوجود خالی خالی، اُجڑا اُجڑا سا لگتا تھا۔
ایک نئی روایت :.
 اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے مطالعے کا شوق رکھنے والے حضرات کو یہ ترجمہ پڑھنے کی ترغیب دیں ، آسان ترجمہ قرآن میڈیم کوالٹی پرنٹ کے ساتھ بھی شائع کیا گیا ہے، اسکا ایک نسخہ اپنی گھریلو لائبریری میں رکھا جائے ، وسعت ہو تو قریبی لائبریری یا مسجد کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے ، اپنے امام صاحب سے اس ترجمہ کا کورس شروع کروانے کا مطالبہ کریں ، اس کے علاوہ ترجمہ اعلی کوالٹی پرنٹنگ میں بھی دستیاب ہے وہ تکمیل القرآن اور نکاح وغیرہ کے موقع پر گفٹ کیا جاسکتا ہے۔ جو لوگ پہنچ رکھتے ہیں وہ سعودی حکام کو ایک یادواشت بھیج سکتے ہیں کہ عمرہ اور حج کے لیے جانے والے مہمانان حرم کو یہی نسخہ ہدیہ دیا کریں۔ مزید بہت سے مصنفین و مؤلفین اور مضمون نگار و تحقیق کار حضر ات کو اپنی تحریروں میں قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ دینے کی ضرورت پیش آئے تو وہ اس ترجمہ قرآن سے ترجمہ نقل کرسکتے ہیں۔خیر کی بات جس درجہ میں ہو ہو فائدہ ہے، کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ کسی بھی درجے اور حیثیت میں اس نفع کے حصول کی جدو جہد جاری رکھیں، نہ معلوم کون سی بات ذریعہ نجات بن جائے۔ )

تراجم کی سافٹ کاپی :۔

ڈائریکیٹ ڈاؤنلوڈ لنکس ہیں، رائٹ کلک کرکے سیو ایز کرنے سے ڈاؤنلوڈ سٹارٹ ہوجائیگی۔



سکین کاپی تینوں جلدیں
Read Online
Download
Volume 1 [14] Volume 2 [13] Volume 3 [15]i


کمپیوٹرکاپی
[Download 7mb]

آن لائن ہدیہ کرانے کا طریقہ :۔ 

پاکستان میں دونوں تراجم ہر اچھے اسلامی کتب خانہ سے مل جاتے ہیں، جو دوست آن لائن منگوانا چاہیں ،   دونوں تراجم  انکی اپنی سائیٹ پر مناسب قیمت پر آن لائن بھی دستیاب ہیں، انگلش ترجمہ یہاں سے اور اردو یہاں  سے ہدیہ کرائے جاسکتے ہیں۔

( تحریر میں موجود تراجم پر تحقیق معروف عالم دین مفتی ابو لبابہ شاہ صاحب کے کالم سے لی گئی ہے)
مکمل تحریر >>

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ کا اتہام

تاریخ میں بعض لوگ فقہ اور امام الفقہ  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  كی مخالفت میں اس حد تک گئے کہ امام صاحب کیساتھ کفریہ عقائد کی نسبت کردی ان میں سے  ایک نام خطیب بغدادی کا ہےجنہوں نے تمام اسلاف کے مسلک اور موقف سے ہٹ كر  امام ابوحنیفہ کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی اور بہت سے الزامات نقل کیے ہیں  حالانکہ  خود خطیب ان جرحوں کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں؛ بلکہ انھوں نے ان جرحوں کے نقل کرنے پر معذرت کی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ خود امام صاحب کی جلالت قدر کومانتے ہیں؛ ظاہر ہے کہ اگرمذکورہ بالا جرحوں میں سے خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یافروع سے، ایک جرح بھی خطیب کے یہاں ثابت ہوتی توجلالت قدرتودرکنا، امام صاحب کی قدر بھی ان کے دل میں نہ ہوتی، اس کے علاوہ جرحیں نقل کرنے کے ساتھ ساتھ جابجا ان کے تردیدی اقوال بھی نقل کرتے ہیں، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خطیب صرف ناقل ہیں، خود ان کوان جرحوں پر اعتماد نہیں، مزید امام ابوحنیفہ کا علمی مقام و مرتبہ اسوقت کے  لوگوں پر عیاں تھا اس لیے  ان کی تہمتوں کا جواب اسی دور میں ہی دیا جاتا رہا اور اسلاف میں سے ہی کئی مشہور علماء نے خطیب  کے نقل کردہ الزامات کو غلط ثابت کیا ، آج کل ایک فرقہ کی جانب سے اپنے آپ کو برصغیر میں واحد اہل حق کی جماعث  ثابت کرنے کے لیے   اسی انداز میں فقیہہ اعظم رحمہ اللہ کی پگڑی اچھالی جارہی ہے،  یہ  لوگ امام صاحب کے ساتھ  اپنےاس تعصب میں مکروفریب سے کام لینے سے  بھی باز نہیں آتے اور  عموما  امام صاحب پر  ایسے الزامات لگاتے  ہیں، جن کا  معقول جواب وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اسی دور میں دے دیا گیا تھا جس دور میں یہ الزام لگائےگئے تھے ، لیکن مقصد چونکہ  عوام کو بددل کرنا ہوتا ہے اور انکا اپنا گمان بھی یہی ہوتا ہے کہ عوام خود تحقیق نہیں کریں گے  نا انکے پاس  اتنا علم ہے کہ وہ اپنے طور پر عربی کتابوں کا مطالعہ کرسکیں، اسی لیے عموما ایسے مسائل کو پیش کرتے ہیں  جنکی حقیقت عوام پر واضح نہیں ہوتی ، مقصد چونکہ امام اعظم کی شخصیت کو داغدار کرنا ہوتا ہے اس لیے تاریخ میں امام صاحب پر مجہول سے مجہول شخص کی طرف سے لگائے گئے الزام کو بھی  اپنی کتابوں میں نقل کرجاتے ہیں۔ اسکی کئی مثالیں انکے معتبر ترین علماء کی کتابوں سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔۔  کبھی الزام لگاتے ہیں کہ ابوحنیفہ کو سترہ حدیثیں بھی نہیں یاد تھیں، کبھی کہا جاتا ہےانہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب کے خلاف ایک مذہب گھڑا تھا ،  کبھی اجتہادی مسائل کو پیش کرکے کہاجاتا ہے دیکھو انہوں نے قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنی رائے سے فتوی دیا،، ایک صاحب کے منہ سے تو یہاں تک سنا کہ امام صاحب کو بار بار شرکیہ عقائد سے توبہ کرائی گئی لیکن امام صاحب معاذ اللہ تقیہ کرتے رہے اور ان کی موت بھی کفر پہ ہوئی، اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے ۔   ایک وسوسہ جو آج کل بڑے زور و شور کیساتھ پیش کیا جارہا اور عوام کو غوروفکر کی دعوت دی جارہی ہے وہ امام صاحب پر   خلق قرآن کی تہمت  ہے ۔ 
اس تہمت کے متعلق  امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ  کہتے ہیں
"لم یصح عندنا ان اباحنیفۃ کان یقول القرآن مخلوق"۶؎۔
ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ  قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ  کے علاوہ ابوسلیمان جوزجانی  اور معلیٰ بن منصور وغیرہ  بھی کہتے ہیں :
"ماتکلم ابوحنیفۃ ولاابویوسف ولازفر ولامحمد ولااحد من اصحابھم فی القرآن وانماتکلم فی القرآن بشرالمریسی وابن ابی داؤد"۷؎۔
امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام زفر، امام محمد اور ان کے علاوہ دیگر احناف میں سے کوئی خلقِ قرآن کے قائل نہیں ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ بشر مریسی اور ابن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک ہے؛ 

 امام ابوحنیفہ خلقِ قرآن کے کیا قائل ہوتے؛ بلکہ انھوں نے تواس کی تردید کی ہے، ایک مرتبہ عبداللہ ابنِ مبارک ابوحنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے توامام صاحب رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں میں کیا چرچا ہورہا ہے؛ انھوں نے جواب دیا: ایک شخص جھم نامی ہے؛ اسی کا چرچا ہورہا ہے، امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ وہ کیا کہتا ہے؟ عبداللہ ابنِ مبارک نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:"القرآن مخلوق" یہ سنکر امام صاحب نےیہ آیت پڑھی:
"كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّاكَذِبًا"۔     (الکہف:۵)
بڑی بھاری بات ہے جوان کے منھ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ بالکل ہی جھوٹ بکتے ہیں۔
اس صراحت کے باوجود امام صاحب کی طرف خلقِ قرآن کی نسبت کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟۔
 (۶)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۱۵۔ (۷)امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین،تاریخ بغداد:۵۰۔
بعد میں امام احمد بن حنبل علیہ الرحمة کے فرزند عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ  اپنی کتاب 'كتاب السنة'  میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے متعلق  ایک متنازعہ باب شامل کیا ۔ اس باب میں اُس دَور کے علماء و ائمہ کے اقوال نقل  کئے گئے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کی وفات خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ پر ہوئی تھی۔

حالانکہ جیسا کہ اوپر بھی تذکرہ آیا۔ اور خود انکے والد نے اس قول کی نفی کی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حقیقت میں عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا اجتہاد تھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کے بارے میں علماء کرام کے اقوال نقل فرمائے۔ ۔مزید امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) پر کی گئی بعد کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ بالجملہ سلف الصالحین کے ہی عقیدہ و منہج کے تابع تھے ،۔   الحمدللہ ۔جیساکہ   امام ابن تیمیہ علیہ الرحمة نے جب اپنا مشہور رسالہ رفع الملام عن الأئمة الأعلام {مشہور ائمہ کرام پر کی جانے والی ملامتوں کا ازالہ}تحریر کیا تو اس میں امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کے ساتھ دیگر تمام ائمہ کا ذکرِ خیر ہی فرمایا ہے۔
امام طحاوی (رحمة اللہ علیہ) بھی لکھتے ہیں کہ :
علماء کرام کا اب اس بات پر اجماع ہو گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) سے متعلق اتہامات کو مزید روایت نہ کیا جائے گا اور ان کا اب صرف ذکرِ خیر ہی کیا جائے گا۔

سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کے دورِ امارت میں جب "كتاب السنة" شائع کی گئی تو اُس وقت کے مکہ مکرمہ کے چیف جسٹس شیخ علامہ عبداللہ بن حسن آل الشیخ (رحمة اللہ علیہ) نے وہ مکمل باب (امام ابوحنیفہ کے خلاف اتہامات) طباعت سے نکال دیا۔اُس باب کو نکالنا خیانت یا بددیانتی نہیں تھی۔ وہ دراصل شرعی حکمت تھی کیونکہ جو باتیں اُس باب میں موجود تھیں ، اُن باتوں کا اپنا ایک وقت تھا جو گزر چکا۔اس کے علاوہ مصلحت اور اجتہاد کا تقاضا تھا کہ اس باب کو ہٹا دیا جائے کیونکہ لوگ ان اتہامات کی وجہ سے کتاب میں موجود سنت اور صحیح عقائد کے بیانات کو پڑھنے سے رک جاتے۔پھر حال ہی میں ایک علمی ریسرچ کے نام پر "كتاب السنة" شائع کرتے ہوئے اس میں وہ متنازعہ باب اس دعوے کے ساتھ شامل کیا گیا کہ : امانت کا یہی تقاضا ہے۔
بلاشبہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے !کیونکہ ۔۔۔۔ اِس طرح کی کتابوں کی تالیف سے علماء کرام کا جو اصل مقصد ہوتا ہے ، اسے جانتے ہوئے ، زمان و مکان و حال کے اختلاف کا لحاظ رکھتے ہوئے اور شرعی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے علماء کرام نے متنازعہ باب کو شامل نہ کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا۔
سماحة الشیخ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے سامنے جب یہ نئی کتاب پیش کی گئی (جس میں متنازعہ باب شامل ہے) تو آپ نے فرمایا :
الذي صنعه المشايخ هو المتعين ومن السياسة الشرعية أن يحذف وإيراده ليس مناسبا. وهذا هو الذي عليه نهج العلماء.
جو کام (باب کو حذف کرنے کا) مشائخ کرام نے کیا تھا وہی متعین بات تھی اور اسے حذف کرنا شرعی سیاست کے عین مطابق تھا اور اسے واپس کتاب میں  داخل کر دینا مناسب نہیں ، یہی علماء کرام کا منہج ہے ! 

مکمل تحریر >>