Tuesday, May 21, 2013

مزارات اولیاء رحمهم الله سے فیض اور علمائے دیوبند


 مزارات اولیاء سے کاملین کوفیض هوتا هے مگرعوام کواس کی اجازت دینی هرگزجائزنہیں هے ، اورتحصیل فیض کا طریقہ کوئ خاص نہیں هے ، جب جانے والا اهل هوتا هے تواس طرف سے حسب استعداد فیضان هوتا هے ، مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا هے ۔ ( فتاوی رشیدیه ص 104 )
اب یہاں چند باتیں قابل غور هیں 
1.   تقریبا اسی طرح کی بات ( المهند علی المفند ) اور دیگرکتب مشائخ میں بھی موجود هے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ هے کہ اهل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں هے ، تومعلوم هوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں هے۔
2.   پھر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات هیں یہ صرف علماء کاملین کے لیئے هیں نہ کہ عوام کے لیئے اورپھر عوام میں هروه شخص داخل هے جواس طریق سے نابلد هو چاهے کسی اورفن میں معلومات رکھتا هے ۔
عربی کا مشہور مقولہ هے ( لکُـل فـَنٍّ رِجـَال )  هرفن کے اپنے ماهرلوگ هوتے هیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماهرلوگوں کواجازت هے ۔
3.  کچھ لوگ اس قول پراعتراض کرتے هیں کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں هے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنے کےمترادف کیوں هے ؟؟ 
خوب یاد رکهیں الحمد لله حضرات اکابرعلماء دیوبند کا یہ قول بھی احادیث نبویہ وتعلیمات سلف کے بالکل موافق هے ، کیونکہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرنا ممنوع هے جہاں تک ان کے عقول ومعرفت نہ پہنچ سکیں ۔
ابن مسعود رضی الله عنہ کا قول هے کہ 
جب توکسی قوم کو کوئی حدیث بیان کرتا هے جس تک ان کے عقول نہیں پہنچتے تو وه اس قوم میں سے بعض کے لیئے فتنہ کا باعث بن جاتا هے ۔ 
قال ابن مسعود رضی الله عنہ :
" ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم ، إلا كان لبعضهم فتنة " 
[((أخرجه مسلم في " مقدمة صحيحه " ( 1 / 108 – نووي ) ، وعبدالرزاق في " مصنفه " ( 11 / 286 ) – ومن طريقه الطبراني في " المعجم الكبير " ( 9 / 151 / 8850 ) ، والخطيب في "الجامع لأخلاق الراوي " ( 2 / 108 / 1321 ) ، والسمعاني في " أدب الإملاء والاستملاء " ( ص 60 ) – ، والرامهرمزي في " المحدث الفاصل " ( ص 577 ) ، وابن عبدالبر في " جامع بيان العلم " ( 1 / 539 و 541 / 888 و 892 ) ، والبيهقي في " المدخل " ( 611)) .]
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں هوں ان اکابراعلام کے قبور مبارکہ پر کہ دین میں کوئی بات بلادلیل وثبوت نہیں کہی ، مجھے ازخود اکابرکے اس قول پرکئی ساتھیوں نے کہا کہ همیں کچھ کھٹک سی رهتی هے کہ یہ کیوں کہا کہ کاملین کے لیئے جائز اور عوام کے لیئے ناجائز ؟ لہذا اس باب میں تھوڑی سی تحقیق وتفتیش کے بعد معلوم هوا کہ ان اکابراعلام کا یہ فرمان احادیث نبویہ واقوال وتعلیمات سلف کے بالکل مطابق وموافق هے ، حتی کہ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک باب قائم کیا هے ، جس میں اتنی واضح طور پراکابراعلام کے اس قول کی تائید وتصدیق موجود هے ،
باب من ترك بعض الاختيار مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه
یعنی یہ باب هے اس شخص کے بارے میں جس نے بعض جائز چیزوں کو اس ڈرسے چھوڑ دیا کہ بعض کم فہم لوگ اس سے سخت بات میں مبتلا نہ ہو جائیں ،اوراس باب وترجمہ کے تحت یہ حدیث نقل کی هے
حدثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن الأسود قال: قال لي ابن الزبير كانت عائشة تسر إليك كثيرا فما حدثتك في الكعبة قلت: قالت لي قال النبي يا عائشة لولا قومك حديث عهدهم قال ابن الزبير بكفر لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون ففعله بن الزبير ۰
امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک اوراس طرح باب قائم کیا هے
باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا
یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتھ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑھایا کہ وه اس کو نہیں سمجھیں گے ۔
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا
وقال علي حدثوا الناس بما يعرفون أتحبون أن يكذب الله ورسوله
حضرت علی نے فرمایا کہ لوگوں کوبیان کرو جووه سمجھتے هوں ، کیاتم پسند کرتے هو کہ الله ورسول کی تکذیب کی جائے ؟
یعنی کوئی بھی غامض ودقیق وباریک بات جوعوام کے سمجھ وفہم سے باهرهوتوان کووه بیان نہ کی جائے۔
اوراسی کو حضرت الامام گنگوهی رحمہ الله نے فرمایا کہ 
( مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا هے ۔ )
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی یہ روایت نقل کی هے ،
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتھ سواری پرسوار تھے تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا ‏ ‏معاذ بن جبل۔ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے عرض کی لبيك يا رسول الله وسعديك ۔پھر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا ‏ ‏معاذ بن جبل۔ حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے عرض کی لبيك يا رسول الله وسعديك ، تین مرتبہ فرمایا یعنی یہ ندا اورجواب ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جوکوئی بھی صدق دل سے یہ گواهی دے کہ لا إله إلا الله وأن‏ ‏محمدا ‏ ‏رسول الله توالله تعالی اس کوجهنم کی آگ پرحرام کردیں گے ، حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے فرمایا يا رسول الله کیا میں لوگوں کواس کی خبرنہ دوں پس وه بھی خوشخبری حاصل کرلیں ؟؟
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ( إذا يتكلوا ) یعنی اگرتوان کوخبردے گا تووه اسی پراکتفاء کرلیں گے ، یعنی عمل نہیں کریں گے اسی حکم کے ظاهرپراعتماد کرلیں گے ، اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے اپنی موت کے وقت اس حدیث کی خبردی تاکہ ( کتمان علم ) کا گناه نہ هو ۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم قال: حدثنا معاذ بن هشام قال: حدثني أبي عن قتادة قال: حدثنا أنس بن مالك أن النبي ومعاذ رديفه على الرحل قال: يا معاذ بن جبل قال لبيك يا رسول الله وسعديك قال: يا معاذ قال لبيك يا رسول الله وسعديك ثلاثا قال: ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال: يا رسول الله أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا وأخبر بها معاذ عند موته تأثما ۰ 
حدثنا مسد د قال: حدثنا معتمر قال: سمعت أبي قال: سمعت أنسا قال: ذكر لي أن النبي قال لمعاذ من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة قال ألا أبشر الناس قال لا إني أخاف أن يتكلوا ۰ 
اوراسی مضمون کوبیان کرنے والی بعض دیگر روایات ملاحظہ کریں
أُمِرْنا أن نُكلِّمَ الناسَ على قدْر عقولِهم.
(رواه الديلمي عن ابن عباس مرفوعا، )
وقال في المقاصد وعزاه الحافظ ابن حجر لمسند الحسن بن سفيان عن ابن عباس بلفظ
أمرت أن أخاطب الناس على قدر عقولهم ،
ورواه أبو الحسن التميمي من الحنابلة في العقل له عن ابن عباس من طريق أبي عبد الرحمن السُلَمي أيضا بلفظ بُعْثِنا معاشر الأنبياء نخاطب الناس على قدر عقولهم، وله شاهد عن سعيد بن المسيب مرسلا بلفظ إنا معشر الأنبياء أمرنا وذكره،
ورواه في الغنية للشيخ عبد القادر قدس سره بلفظ أمرنا معاشر الأنبياء أن نحدث الناس على قدر عقولهم
وروى البيهقي في الشعبعن المقدام بن معدي كرب مرفوعا إذا حدثتم الناس عن ربهم فلا تحدثوهم بما يعزب عنهم ويشق عليهم،
وصح عن أبي هريرة حفظت عن النبي صلي الله عليه وسلم وعاءَيْنِ:
فأما أحدهما فَبَثثْتُهُ، وأما الآخر فلو بثثتُه لقُطع هذا البلعوم،
وروى الديلمي عن ابن عباس مرفوعا عاقبوا أرقاءكم على قدر عقولهم، وأخرجه الدارقطني عن عائشة مثله، وروى الحاكم وقال صحيح على شرط الشيخين عن أبي ذر مرفوعا خالقوا الناس بأخلاقهم، 
وأخرج الطبراني وأبو الشيخ عن ابن مسعود خالط الناس بما يشتهون، ودينك فلا تَكْلِمْهُ، ونحوه عن علي رفعه، خالق الفاجر مخالقة، وخالص المؤمن مخالصة، ودينك لا تسلمه لأحد، وفي حديث أوله خالطوا الناس علي قدر إيمانهم ) راجع كشف الخفاء للعجلوني (

اس باب میں دیگراقوال وروایات بھی هیں ، لیکن حق وهدایت کے طالبین کے لیئے اس قدر میں کفایت هے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔