Wednesday, July 24, 2013

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ کا اتہام

تاریخ میں بعض لوگ فقہ اور امام الفقہ  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  كی مخالفت میں اس حد تک گئے کہ امام صاحب کیساتھ کفریہ عقائد کی نسبت کردی ان میں سے  ایک نام خطیب بغدادی کا ہےجنہوں نے تمام اسلاف کے مسلک اور موقف سے ہٹ كر  امام ابوحنیفہ کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی اور بہت سے الزامات نقل کیے ہیں  حالانکہ  خود خطیب ان جرحوں کی ذمہ داری لینے پر تیار نہیں؛ بلکہ انھوں نے ان جرحوں کے نقل کرنے پر معذرت کی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ خود امام صاحب کی جلالت قدر کومانتے ہیں؛ ظاہر ہے کہ اگرمذکورہ بالا جرحوں میں سے خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یافروع سے، ایک جرح بھی خطیب کے یہاں ثابت ہوتی توجلالت قدرتودرکنا، امام صاحب کی قدر بھی ان کے دل میں نہ ہوتی، اس کے علاوہ جرحیں نقل کرنے کے ساتھ ساتھ جابجا ان کے تردیدی اقوال بھی نقل کرتے ہیں، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خطیب صرف ناقل ہیں، خود ان کوان جرحوں پر اعتماد نہیں، مزید امام ابوحنیفہ کا علمی مقام و مرتبہ اسوقت کے  لوگوں پر عیاں تھا اس لیے  ان کی تہمتوں کا جواب اسی دور میں ہی دیا جاتا رہا اور اسلاف میں سے ہی کئی مشہور علماء نے خطیب  کے نقل کردہ الزامات کو غلط ثابت کیا ، آج کل ایک فرقہ کی جانب سے اپنے آپ کو برصغیر میں واحد اہل حق کی جماعث  ثابت کرنے کے لیے   اسی انداز میں فقیہہ اعظم رحمہ اللہ کی پگڑی اچھالی جارہی ہے،  یہ  لوگ امام صاحب کے ساتھ  اپنےاس تعصب میں مکروفریب سے کام لینے سے  بھی باز نہیں آتے اور  عموما  امام صاحب پر  ایسے الزامات لگاتے  ہیں، جن کا  معقول جواب وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اسی دور میں دے دیا گیا تھا جس دور میں یہ الزام لگائےگئے تھے ، لیکن مقصد چونکہ  عوام کو بددل کرنا ہوتا ہے اور انکا اپنا گمان بھی یہی ہوتا ہے کہ عوام خود تحقیق نہیں کریں گے  نا انکے پاس  اتنا علم ہے کہ وہ اپنے طور پر عربی کتابوں کا مطالعہ کرسکیں، اسی لیے عموما ایسے مسائل کو پیش کرتے ہیں  جنکی حقیقت عوام پر واضح نہیں ہوتی ، مقصد چونکہ امام اعظم کی شخصیت کو داغدار کرنا ہوتا ہے اس لیے تاریخ میں امام صاحب پر مجہول سے مجہول شخص کی طرف سے لگائے گئے الزام کو بھی  اپنی کتابوں میں نقل کرجاتے ہیں۔ اسکی کئی مثالیں انکے معتبر ترین علماء کی کتابوں سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔۔  کبھی الزام لگاتے ہیں کہ ابوحنیفہ کو سترہ حدیثیں بھی نہیں یاد تھیں، کبھی کہا جاتا ہےانہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب کے خلاف ایک مذہب گھڑا تھا ،  کبھی اجتہادی مسائل کو پیش کرکے کہاجاتا ہے دیکھو انہوں نے قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنی رائے سے فتوی دیا،، ایک صاحب کے منہ سے تو یہاں تک سنا کہ امام صاحب کو بار بار شرکیہ عقائد سے توبہ کرائی گئی لیکن امام صاحب معاذ اللہ تقیہ کرتے رہے اور ان کی موت بھی کفر پہ ہوئی، اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے ۔   ایک وسوسہ جو آج کل بڑے زور و شور کیساتھ پیش کیا جارہا اور عوام کو غوروفکر کی دعوت دی جارہی ہے وہ امام صاحب پر   خلق قرآن کی تہمت  ہے ۔ 
اس تہمت کے متعلق  امام احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ  کہتے ہیں
"لم یصح عندنا ان اباحنیفۃ کان یقول القرآن مخلوق"۶؎۔
ہمارے نزدیک یہ قول صحیح نہیں کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ  قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل تھے۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ  کے علاوہ ابوسلیمان جوزجانی  اور معلیٰ بن منصور وغیرہ  بھی کہتے ہیں :
"ماتکلم ابوحنیفۃ ولاابویوسف ولازفر ولامحمد ولااحد من اصحابھم فی القرآن وانماتکلم فی القرآن بشرالمریسی وابن ابی داؤد"۷؎۔
امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام زفر، امام محمد اور ان کے علاوہ دیگر احناف میں سے کوئی خلقِ قرآن کے قائل نہیں ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ بشر مریسی اور ابن ابی داؤد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مسلک ہے؛ 

 امام ابوحنیفہ خلقِ قرآن کے کیا قائل ہوتے؛ بلکہ انھوں نے تواس کی تردید کی ہے، ایک مرتبہ عبداللہ ابنِ مبارک ابوحنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے توامام صاحب رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا کہ تم لوگوں میں کیا چرچا ہورہا ہے؛ انھوں نے جواب دیا: ایک شخص جھم نامی ہے؛ اسی کا چرچا ہورہا ہے، امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ وہ کیا کہتا ہے؟ عبداللہ ابنِ مبارک نے عرض کیا: وہ کہتا ہے:"القرآن مخلوق" یہ سنکر امام صاحب نےیہ آیت پڑھی:
"كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّاكَذِبًا"۔     (الکہف:۵)
بڑی بھاری بات ہے جوان کے منھ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ بالکل ہی جھوٹ بکتے ہیں۔
اس صراحت کے باوجود امام صاحب کی طرف خلقِ قرآن کی نسبت کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟۔
 (۶)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۱۵۔ (۷)امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ناقدین،تاریخ بغداد:۵۰۔
بعد میں امام احمد بن حنبل علیہ الرحمة کے فرزند عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ  اپنی کتاب 'كتاب السنة'  میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے متعلق  ایک متنازعہ باب شامل کیا ۔ اس باب میں اُس دَور کے علماء و ائمہ کے اقوال نقل  کئے گئے ہیں کہ : امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کی وفات خلق قرآن کے کفریہ عقیدہ پر ہوئی تھی۔

حالانکہ جیسا کہ اوپر بھی تذکرہ آیا۔ اور خود انکے والد نے اس قول کی نفی کی۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ حقیقت میں عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا اجتہاد تھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کے بارے میں علماء کرام کے اقوال نقل فرمائے۔ ۔مزید امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) پر کی گئی بعد کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ بالجملہ سلف الصالحین کے ہی عقیدہ و منہج کے تابع تھے ،۔   الحمدللہ ۔جیساکہ   امام ابن تیمیہ علیہ الرحمة نے جب اپنا مشہور رسالہ رفع الملام عن الأئمة الأعلام {مشہور ائمہ کرام پر کی جانے والی ملامتوں کا ازالہ}تحریر کیا تو اس میں امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) کے ساتھ دیگر تمام ائمہ کا ذکرِ خیر ہی فرمایا ہے۔
امام طحاوی (رحمة اللہ علیہ) بھی لکھتے ہیں کہ :
علماء کرام کا اب اس بات پر اجماع ہو گیا ہے کہ امام ابو حنیفہ (رحمة اللہ علیہ) سے متعلق اتہامات کو مزید روایت نہ کیا جائے گا اور ان کا اب صرف ذکرِ خیر ہی کیا جائے گا۔

سعودی عرب میں ملک عبدالعزیز کے دورِ امارت میں جب "كتاب السنة" شائع کی گئی تو اُس وقت کے مکہ مکرمہ کے چیف جسٹس شیخ علامہ عبداللہ بن حسن آل الشیخ (رحمة اللہ علیہ) نے وہ مکمل باب (امام ابوحنیفہ کے خلاف اتہامات) طباعت سے نکال دیا۔اُس باب کو نکالنا خیانت یا بددیانتی نہیں تھی۔ وہ دراصل شرعی حکمت تھی کیونکہ جو باتیں اُس باب میں موجود تھیں ، اُن باتوں کا اپنا ایک وقت تھا جو گزر چکا۔اس کے علاوہ مصلحت اور اجتہاد کا تقاضا تھا کہ اس باب کو ہٹا دیا جائے کیونکہ لوگ ان اتہامات کی وجہ سے کتاب میں موجود سنت اور صحیح عقائد کے بیانات کو پڑھنے سے رک جاتے۔پھر حال ہی میں ایک علمی ریسرچ کے نام پر "كتاب السنة" شائع کرتے ہوئے اس میں وہ متنازعہ باب اس دعوے کے ساتھ شامل کیا گیا کہ : امانت کا یہی تقاضا ہے۔
بلاشبہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے !کیونکہ ۔۔۔۔ اِس طرح کی کتابوں کی تالیف سے علماء کرام کا جو اصل مقصد ہوتا ہے ، اسے جانتے ہوئے ، زمان و مکان و حال کے اختلاف کا لحاظ رکھتے ہوئے اور شرعی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے علماء کرام نے متنازعہ باب کو شامل نہ کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا۔
سماحة الشیخ عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے سامنے جب یہ نئی کتاب پیش کی گئی (جس میں متنازعہ باب شامل ہے) تو آپ نے فرمایا :
الذي صنعه المشايخ هو المتعين ومن السياسة الشرعية أن يحذف وإيراده ليس مناسبا. وهذا هو الذي عليه نهج العلماء.
جو کام (باب کو حذف کرنے کا) مشائخ کرام نے کیا تھا وہی متعین بات تھی اور اسے حذف کرنا شرعی سیاست کے عین مطابق تھا اور اسے واپس کتاب میں  داخل کر دینا مناسب نہیں ، یہی علماء کرام کا منہج ہے ! 

No comments:

Post a Comment