Tuesday, May 21, 2013

مسئلہ وحدت الوجود اور دیوبند

 فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل چند جہلاء  اپنی طرف سے وحدت الوجود کی تشریح کرتے ہیں پھر  عوام کوبتلاتے هیں کہ  یہ علماء دیوبند کا عقیده هے ،اس کے جواب میں چند پوائنٹس میں بات کروں گا ۔
1. علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اهل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا هے کہ یہ لوگ الله تعالی کے لیئے حُلول واتحاد کا عقیده رکهتے هیں جس کو " وحدتُ الوجود " کہا جاتا هے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے هیں کہ (معاذالله ) الله تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیره هر چیز میں حلول کیا هوا هے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاهدات ومحسوسات هیں وه بعینہ الله تعالی کی ذات هے ۔(معاذالله ثم معاذالله وتعالی الله عن ذالک علوا کبیرا)
بلا شک " وحدتُ الوجودکا یہ معنی ومفہوم صریح کفر وضلال هے جس کا ایک ادنی مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ علماء حق علماء دیوبند کا یہ عقیده هو ۔( سبحانک هذا بهتان عظیم )
ناحق بهتان والزام لگانے والے جهال ومتعصبین کا منہ کوئ بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئ مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ ره سکتی هے اور هرزمانے میں کمینے اور جاهل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی هے ،لهذا جولوگ اپنی طرف سے " وحدتُ الوجود کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے هیں اور عوام الناس کو گمراه کرتے هیں یقینا ایسے لوگ الله تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام " وحدتُ الوجود " کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری هیں ۔
واضح رهے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بھی یہ بهتان لگاتے رهیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں هے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے هوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت هی هے چاهے علماء دیوبند هزار باریہ کہیں کہ همارا یہ عقیده نہیں هے هماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لیئے هے جوایسے جھوٹے اورجاهل لوگوں کی سنی سنائ باتوں کی اندهی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رهے هیں۔
اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ  کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذهن میں رکھیں
قسم اٹھاکرفرماتے هیں کہ جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں هوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین الله تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انهوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں هے
ماَ نعبُدُهُم الا لِیُقَرّبوُنا الی الله یعنی هم ان بتوں کی عبادت اس لیئے کرتے هیں تاکہ یہ همیں الله کے قریب کردیں تو اولیاء الله کے متعلق یہ بهتان لگانا کہ وه ، حلول واتحاد ، کا عقیده رکھتے تھے سراسر بهتان اور جھوٹ هے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی هے جس کو جاهل واحمق هی قبول کریگا۔
2.  جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں " وحدتُ الوجود " کا کلمہ موجود هے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شهادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری هے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ هے اس قسم کے امور میں ۔اور وه تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد " وحدتُ الوجودسے وه نہیں هے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا هے اور حقیقت بھی یہی هے ۔
اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد هوئے هیں جو بظا هر خلاف شرع معلوم هوتے هیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح هے جس کی دفاع خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کی هے ( صحیح بخاری ومسلم ) کی روایت هے جس کا مفہوم یہ هے کہ وه جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رها تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لهذا وه تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لیئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غائب هے وه اس کو تلاش کرنے کے لیئے گیا لیکن اس کو نهیں ملا لهذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس هو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا هے کہ اس کی سواری بھی موجود هے اور کھانا پینا بھی وه اتنا خوش هوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتها پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے. اللهم انتَ عبدی وانا ربُک. یعنی اے الله تو میرا بنده میں تیرا رب ، اسی حدیث میں هے کہ الله تعالی بنده کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیاده خوش هوتے هیں ،
 جاء في الحديث الذي رواه الإمام مسلم" لله أشد فرحاً بتوبة عبده حين يتوب إليه من أحدكم كان على راحلته بأرض فلاة فانفلتت منه وعليها طعامه وشرابه فأيس منها فأتى شجرة فاضطجع في ظلها وقد أيس من راحلته فبينما هو كذلك إذ هو بها قائمة عنده بخطامها ، ثم قال من شدة الفرح: اللهم أنت عبدي وأنا ربك! أخطأ من شدة الفرح". اوکما قال النبی صلی الله علیہ وسلم
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے الله تو میرابنده میں تیرا رب کیا ان ظاهری الفاظ کو دیکھ کر نام نهاد اهل حدیث وهی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاهری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے هیں ؟
یا حدیث کے ان ظاهری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ " وحدتُ الوجود " کا مسئلہ نہ همارے عقائد میں سے هے نہ ضروریات دین میں سے هے، نہ ضروریات اهل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ هے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ هے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ هے فقط اور اس سے وه صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے هیں ۔

مسئلہ وحدت الوجود پر تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ  کا جواب


وحدت الوجودکا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات  میں حقیقی اور مکمل وجود صرف ذات باری تعالیٰ  کا ہے، اس کے سوا ہر وجود بے ثبات ، فانی اور نا مکمل ہے ۔ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہوجائے گا۔ دوسرے اس لئے کہ ہر شئی اپنے وجود میں ذات باری تعالیٰ کی محتاج ہے، لہذا جتنی اشیاء ہمیں اس کائنات میں نظر آتی ہیں انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں ، اس لئے وہ کالمعدوم ہے ۔
اس کی نظیر یوں سمجھئے جیسے دن کے وقت  آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سےستارے نظر نہیں آتے، وہ اگرچہ موجود ہیں ،لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتا ہےکہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔
اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو وہ جب اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے وجود کی معرفت حاصل کرتا ہے تو تمام وجود اسے ہیچ، ماند  بلکہ کالعدم  نظر آتے ہیں،بقول حضرت مجذوبؒ:
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے              تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
"وحدت الوجود " کا یہ مطلب صاف، واضح اور درست ہے  ، اس سے آگے اس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں وہ بڑی خطرناک ہیں ، اور اگر اس میں غلو ہوجائےتو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جا ملتی ہیں ۔اس لئے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالیٰ کا ہے ، باقی ہر وجود نا مکمل اور فانی ہے ۔                  

(فتاوی عثمانی:۷۲/۱)

مسئلہ وحدت الوجود اور مفتی محمود الحسن گنگوہی:۔

اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا ہر شئی میں ہے حتی کہ بت بھی خدا کے غیر نہیں تو اس کا یہ عقیدہ غلط ہے،ہر شئی کو خدا کی مخلوق اعتقاد کرنا چاہئے،یہ عقیدہ کہ ہرشئی خدا ہے حتی کہ بت بھی  خدا کے  غیر  نہیں یہ اسلامی عقیدہ نہیں، ایسا عقیدہ رکھنے والا دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔                
(فتاوی محمودیہ:۲۴۷/۱)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔